بھارتی انتخابات،مودی کا بیانیہ ٹھس


حالات …ڈاکٹر فضہ خان

بھارتی انتخابات میں عوام نے مودی کے (400 پار) بیانیہ کو مسرد کرتے ہوئے اس کے بھاری اکثریت کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا ہے۔ اور 543 نشستوں میں اس کے حصے صرف 240 آئیں۔ بی جے پی کو 2019 کے الیکشن کے مقابلے میں 60 نشستیں کم ملیں۔اس الیکشن میں اپوزیشن اتحاد نے کانگرس کی قیادت میں زبردست کم بیک کیا جس نے حکومتی اتحاد کی 293 نشستوں کے مقابلے میں 234 نشستیں جیتیں۔کانگرس نے 2019 کے انتخابات سے دگنی نشستیں لیں۔ ان الیکشن کی خاص بات بی جے پی کا ایودھیا سے شکست کھانا ہے۔ یہاں سماج وادی پارٹی نے میدان مارا۔اب تقریبا تمام حلقوں کے نتائج آچکے ہیں جس میں بی جے پی کی قیادت میں حکومتی اتحاد نے سادہ اکثریت حاصل کر لی ہے۔ پھر خطرہ کس بات کا ؟بی جے پی کی صفوں میں ہلچل کیوں؟ کیا اتحادوں کی سیاست میں خطرے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے؟ سادہ اکثریت میں بی جے پی اپنے سیاسی اہداف حاصل کر پائے گی؟ مرضی کی قانون سازی ہو سکے گی؟ بی جے پی چونکہ ہندوتوا کی پیروکار انتہا پسند ہندو تنظیم ہے اس لیے اس نے اپنے ایجنڈے پروان چڑھانے کے لیے اقلیتوں پر زمین تنگ کر رکھی تھی۔ مسلمانوں پر حملے، املاک نذرآتش اور بلووں میں اقلیتی لوگوں کو قتل، گائے ذبح کرنے کے بہانے مسلمانوں کو تشدد کر کے ہلاک کرنا، اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی اور بابری مسجد جیسی تاریخی نشانیوں کو مٹانے جیسے اقدامات اقلیتوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان تھے۔ اس لیے اقلیتوں خصوصا مسلمانوں نے بی جے پی اتحاد کے بیانیہ کو مسترد کرتے ہوئے نسبتا ماڈریٹ اپوزیشن اتحاد کو ووٹ دیئے جس سے بی جے پی کی من مانیوں کا راستہ روکا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی، مسلمانوں کی حقوق سے محرومی اور اقلیتوں کا جینا دوبھر کرنے کے لیے امتیازی قانون سازی نے بھارت کی وفاقیت کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔بی جے بی کی اسی ظالمانہ ،جابرانہ اور ہندواتوا سوچ پر مبنی پالیسی کے باعث بھارت کی متعدد ریاستوں میں آزادی کی تحریکوں نیجنم لیا۔ اب بھارتی پنجاب، ناگالینڈ، تامل ناڈو، کشمیر اور دیگر ریاستوں کے عوام بی جے پی حکومت کے مظالم سے چھٹکارا کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ان تحریکوں میں روز بروز جوبن آرہا ہے۔ اب بھارت بھر میں فورسز پر حملے روٹین ہیں۔مقبوضہ کشمیر کو فوجی چھاونی میں تبدیل کرنے کے باوجود وہاں کے بہادر کشمیری جدوجہد آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ اقلیتوں کا مودی ڈاکٹرائن کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ انتخابات میں عوام نے بی جے پی کی مقبولیت کو زبردست ڈینٹ ڈالا ہے۔اتحادوں کی سیاست میں کسی پارٹی کو کھل کھیلنے کا موقع نہیں ملتا۔ اس لیے بی جے پی پر اس کی حکومت کے خاتمہ کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہے گی۔ اب وہ من مانی کی پوزیشن میں نہیں رہی۔ اس کی سیاسی اجارہ داری اب دنوں کی بات ہے۔ بھارتی عوام نے ہندو انتہا پسندی کے نتائج بھگت لیے۔ وہ مزید کوئی سیاسی عذاب بھگتنے کے موڈ میں نہیں۔ اس لیے بی جے پی کی ہندوتوا پالیسی خیرباد اور اب بھارت میں ماڈریٹ سیاست کا دور دورہ ہوگا۔ موجودہ انتخابات نے مودی کو بھی سیاسی طور پر گہنا دیا ہے۔ انتخابی نتائج نے انہیں دیوتا نما کے بڑے اعزاز سے محروم کر کے عام سیاستدان کا روپ دیا ہے۔ بھارتی انتخابات نے بھارت میں اقلیتوں کے لیے مثبت تبدیلیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ امید ہے نئی حکومت ان کا راستہ نہیں روکیگی۔ ورنہ آزادی کی تحریکوں کو روکنا کسی کے بس میں نہیں رہیگا۔

ای پیپر دی نیشن