دانش …طاہر عباس
Tahirabbasisb@gmail.com
شنید ہے 7 ہزار ار ب روپے کے نئے ٹیکس لگا کر ''تعمیر وترقی'' کے دروازے کھولنے کی کوششیں کی جائے گی۔ اگرایسا ہوا تو 25 کروڑ لوگوں میں نصف (ساڑھے بارہ کروڑ) افراد جنہیں دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں ان کی زندگی کیسے گزرے گی؟ زرا دیر کے لیے سوچیں وفاقی حکومت کے نئے ٹیکس کے بعد پنجاب حکومت نے 9کروڑ افراد کے صوبے سے '' اظہارمحبت ''کرنی ہے پھر لوکل گورنمنٹ اس کے بعد واسا' میونسپل ٹیکس ' ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے ٹیکس گویا شہروں میں رہائش پذیر افراد کے لیے زندگی مزید تنگ کرنے کیلئے آنے والے طوفان کی چاپ محسوس ہو رہی ہے۔ معاشی اور صنعتی یونٹ (سیکٹر) کے طالب علم کی حیثیت سے ہم اہل اقتدار اور پالیسی سازوں ( تھنک ٹینک ) سے سپاس گزار ہیں کہ ٹیکس درٹیکس پالیی خوشحال دور اچھے لگتی ہے۔ جہاں بیروزگاری اور مہنگائی آخری حدوں کو چھو رہی ہو وہاں ٹیکسوں کی مالا میں پرویا وفاقی بجٹ قوم کیا کیا دے گا…11جون کو وفاقی میزانیہ پیش ہونے کی اطلاعات ہیں، نئی اتحادی حکومت کا پہلا وفاقی بجٹ کیسا ہوگا؟ اس بارے میں کاروباری کمیونٹی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ سب فکر مند اور بے کلی کا شکار ہیں کہ 2024-25کا بجٹ معیشت کے لیے کتنا سود مند ہوگا؟ نئے ٹیکس دہندگان کے نام پر دکانداروں کو پریشان کرنے کا ایسا سلسلہ شروع کیا جانے والا ہے جس سے چھوٹے تاجر حکومت کے سامنے آجائیں اگر ایسا ہوا تو پھر اہل اقتدار کو سخت عوامی ردعمل کے لیے تیار رہنا چاہیے…یہ درست ہے کہ وفاقی بجٹ حکومت کی طرف سے سالانہ معاشی پروگرام کہلاتا ہے دنیا بھر میں ریاستیں ایک سال کی خدمت کے لیے خود کو جواب دہ کرتی ہیں اسی ایک سالہ پروگرا م کی بدولت حکومتیں مقبولیت اور قبولیت کے مراحل طے کرتی ہیں۔بدقسمتی ہے کہ ہمارے یہاں بجٹ صرف اور صرف نئے ٹیکس عائد کرنے کا بہانہ جواز سمجھا جاتا ہے۔ بجٹ میں ٹیکس لگانے کے بعد سال بھر میں ٹیکس عائد کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ پارلیمان سمیت کوئی ادارہ بھی عوام کا خیر خواہ نہیں جو ٹیکس درٹیکس پالیسی کے آگے بند باندھ کر غریب لوگوں کو ریلیف دلائے۔ ابھی ہم پچھلے ماہ 11 مئی کو سہہ روزہ احتجاج پر آزاد کشمیر میں عوامی ردعمل دیکھ چکے۔ مہنگائی اور حکمرانوں کی بے نیازی سے متاثرہ عوام مشتعل ہوئے اور انوار حکومت کی جاہ و حشمت بہا کر لے گئے۔بھلا ہو وفاقی حکومت کا جس نے 23 ارب کا خصوصی پیکج دے کر معالات کو بند گلی میں جانے سے روک لیا۔آزاد کشمیر کے 42 لاکھ باشندوں نے اہل اقتدار کو بتا دیا کہ فرانس اور ایران میں کن وجوہ کی بناءپر انقلاب آئے تھے!!
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
ہم نے اپنی پوری حیات میں عوامی زندگی کو اس قدر مضطرب اور بے چین نہیں دیکھا جیسی آج ہے۔ معاشی صورت حال نے'' رشتے'' چھین لئے ہیں۔ پاکستان کی 24 کروڑ افراد کی آبادی میں نصف تعداد کو دو وقت کی روٹی کے لیے جان کے لالے پڑے ہیں۔ ایک کروڑ گریجویٹ روزگار کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں ،تین کروڑ نوجوان عدم روزگار سے مایوس ہیں۔وزیراعظم صاحب نے انکشاف کیا کہ دو کروڑ 80 لاکھ بچے سکول ایجوکیشن سے محروم ہیں۔ انصاف کی فراہمی اور حصول میں جس قسم کی مشکلات حائل ہیں ان کا تصور کرنے سے جسم کانپ جاتا ہے ہم کہاں جارہے ہیں؟ قومی زندگی کا رخ کس طرف ہے، کئی سیاسی جماعت اور سیاسی لیڈر کو اس کا زرا بھر بھی احساس نہیں؟سیاسی قائدین' سیاسی راہنما اور اسٹیک ہولڈز سرجوڑیں۔ وقت تیزی سے نکل رہا ہے اگر چوبیس کروڑ عوام کی خدمت کے جواز پر نئے ٹیکس عائد کرنے سے کا سلسلہ نہ روکا گیا تو پھر فیصلہ پارلیمنٹ کی بجائے سڑکوں پر ہو گا۔ صبر' برداشت اور انتظار یہ تمام کیفیات وقت طلب ہیں، ہمارے خیال میں وہ وقت شائد گزر گیا ہے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ہوش کے میدان میں آجانا چاہیے!!