حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے ارشاد فرمایا میری امت کے اخیر زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو تم سے ایسی احادیث بیان کیا کریں گے جن کو نہ تم اور نہ ہی تمہارے آباؤ اجداد نے اس سے پہلے سنا ہوگا لہذا ان لوگوں سے جس قدر ہو سکے دور رہنا۔ حضرت ابوہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے ارشاد فرمایا آخر زمانہ میں جھوٹے دجال لوگ ہوں گے تمہارے پاس ایسی احادیث لائیں گے جن کو نہ تم نے نہ تمہارے آباؤ اجداد نے سنا ہوگا تم ایسے لوگوں سے بچے رہنا مبادا وہ تمہیں گمراہ اور فتنہ میں مبتلا نہ کر دیں۔
بشیر بن کعب عبداللہ بن عباس کے پاس آئے اور ان سے احادیث بیان کیں ابن عباس نے بشیر کو کہا کہ فلاں فلاں حدیث دہراؤ بشیر نے ان احادیث کو دہرایا پھر کچھ اور احادیث بیان کیں ابن عباس نے اس کو کہا کہ فلاں فلاں حدیث کو دوبارہ دہراؤ بشیر نے وہ احادیث پھر دہرا دین اور عرض کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے میری بیان کردہ سب احادیث کی تصدیق کی ہے یا تکذیب کی ہے جن کو آپ نے دہرایا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ہم اس زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے حدیث بیان کیا کرتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم پر جھوٹ نہیں باندھا جاتا تھا پھر جب لوگ اچھی اور بری راہ پر چلنے لگے تو ہم نے احادیث بیان کرنا چھوڑ دیں۔
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ہم حدیث یاد کیا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی احادیث یاد کی جاتی تھیں لیکن جب تم ہر اچھی اور بری راہ پر چلنے لگے تو اب اعتماد اور اعتبار ختم ہوگیا اور ہم نے اس فن کو چھوڑ دیا۔ ابوایوب، سلیمان بن عبداللہ غیلانی، ابوعامر، عقدی، رباح، قیس بن سعد، حضرت مجاہد بیان فرماتے ہیں کہ بشیر بن کعب عدوی ابن عباس کے پاس آئے اور احادیث بیان کرنا شروع کیں اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے یوں فرمایا لیکن ابن عباس نے نہ اس کی احادیث غور سے سنیں اور نہ ہی اس کی طرف دیکھا بشیر نے عرض کیا اے ابن عباس! کیا بات ہے کہ میں آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی احادیث بیان کر رہا ہوں اور آپ سنتے ہیں نہیں؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ایک وہ وقت تھا کہ جب ہم کسی سے یہ سنتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا تو ہماری نگاہیں دفعتا بے اختیار اس کی طرف لگ جاتیں اور غور سے اس کی حدیث سنتے لیکن جب سے لوگوں نے ضعیف اور ہر قسم کی روایات بیان کرنا شروع کردیں تو ہم صرف اسی حدیث کو سن لیتے ہیں جس کو صحیح سمجھتے ہیں
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے پاس آیا اور اس نے احادیث بیان کرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا۔ حضرت ابن عباسؓ ( نے یہ رویہ رکھا کہ ) نہ اس کو دھیان سے سنتے تھے نہ اس کی طرف دیکھتے تھے۔ وہ کہنے لگا: اے ابن عباس! میرے ساتھ کیا ( معاملہ ) ہے، مجھے نظر نہیں آتا کہ آپ میری ( بیان کردہ ) حدیث سن رہے ہیں؟ میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے حدیث سنا رہا ہوں اور آپ سنتے ہی نہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک وقت ایسا تھا کہ جب ہم کسی کو یہ کہتے سنتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا تو ہماری نظریں فوراً اس کی طرف اٹھ جاتیں اور ہم کان لگا کر غور سے اس کی بات سنتے، پھر جب لوگوں نے ( بلا تمیز ) ہر مشکل اور آسان پر سواری ( شروع ) کر دی تو ہم لوگوں سے کوئی حدیث قبول نہ کی سوائے اس ( حدیث ) کے جسے ہم جانتے تھے۔
یحییٰ بن یعمر سے دو سلسلوں کے ساتھ روایت ہے اور دونوں سلسلوں میں کہمس راوی ہیں کہ سب سے پہلے بصرہ میں معبد جہنی نے انکار تقدیر کا قول کیا یحییٰ کہتے ہیں کہ اتفاقا میں اور حمید بن عبدالرحمن حمیری ساتھ ساتھ حج یا عمرہ کرنے گئے اور ہم نے آپس میں کہہ لیا تھا کہ اگر کسی صحابی سے ملاقات ہوئی تو ان سے تقدیر الٰہی کا انکار کرنے والوں کا مقولہ دریافت کریں گے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حضرت ابن عمر ؓ سے ملاقات ہوگئی آپ مسجد میں داخل ہو رہے تھے ہم دونوں نے دائیں بائیں سے گھیر لیا چونکہ میرا خیال تھا کہ میرا ساتھی سلسلہ کلام میرے ہی سپرد کرے گا اس لئے میں نے کہنا شروع کیا، اے ابوعبدالرحمن ہمارے ہاں کچھ ایسے آدمی پیدا ہوگئے ہیں جو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں اور علم دین کی تحقیقات کرتے ہیں اور راوی نے ان کی تعریف کی مگر ان کا خیال ہے کہ تقدیر الٰہی کوئی چیز نہیں ہے ہر بات بغیر تقدیر کے ہوتی ہے اور سارے کام ناگہاں ہوتے ہیں حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا اگر تمہاری ان لوگوں سے ملاقات ہوجائے تو کہہ دینا کہ نہ میرا ان سے کوئی تعلق ہے اور نہ ان کا مجھ سے حضرت ابن عمرؓ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ سب کا سب اللہ تعالیٰ کی راہ میں خیرات کر دے تب بھی اللہ اس کی خیرات قبول نہیں کرے گا تاوقتیکہ اس کا تقدیر پر ایمان نہ ہو مجھ سے میرے باپ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک حدیث بیان کی تھی فرمایا کہ ایک روز ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی خدمت میں حاضر تھے اچانک ایک شخص نمودار ہوا نہایت سفید کپڑے بہت سیاہ بال سفر کا کوئی اثر یعنی گردو غبار وغیرہ اس پر نمایاں نہ تھا اور ہم میں سے کوئی اس کو جانتا بھی نہ تھا بالآخر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے سامنے زانو بزانو ہو کر بیٹھ گیا اپنے دونوں ہاتھوں کو رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی رانوں پر رکھ دیا اور عرض کیا یا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلّم اسلام کی کیفت تبائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم کلمہ توحید یعنی اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی رسالت (کہ آپ ؐ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں) کا اقرار کرو، نماز پابندی سے ارکان ادا کرو، زکوٰۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر استطاعتِ زاد راہ ہو تو حج بھی کرو۔ آنے والے نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے سچ فرمایا۔ ہم کو تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی تصدیق کرتا ہے، اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا کہ ایمان کی حالت بتائیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا ایمان کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کا اور اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا اور قیامت کا یقین رکھو، تقدیر الٰہی کو یعنی ہر خیر وشر کے مقدم ہونے کو سچا جانو۔ آنے والے نے عرض کیا: آپ نے سچ فرمایا۔ پھر کہنے لگا احسان کی حقیقت بتائیے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا: احسان کی حقیقت یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو اگر یہ مرتبہ حاصل نہ ہو تو (تو کم از کم) اتنا یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم کو دیکھ رہا ہے۔ آنے والے نے عرض کیا کہ قیامت کے بارے میں بتائیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے عرض کیا کہ قیامت کے بارے میں جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سائل سے زیادہ اس بات سے واقف نہیں ہے اس نے عرض کیا اچھا قیامت کی علامات بتائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا قیامت کی علامات میں سے یہ بات ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اور تو دیکھے گا کہ ننگے پاؤں ننگے جسم تنگ دست چرواہے بڑی بڑی عمارتوں پر اترائیں گے اس کے بعد وہ آدمی چلا گیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں کچھ دیر تک ٹھہرا رہا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا اے عمر کیا تم جانتے ہو کہ یہ سوال کرنے والا کون تھا میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا یہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔