بھارت کے حالیہ انتخاب نے میری دانست میں بنیادی پیغام یہ دیا ہے کہ اپنے تئیں ’’دطیوتا‘‘ ہوئے سیاسی رہ نمائوں کے آمرانہ رویوں سے نجات کا راستہ جمہوری نظام کے ذریعے ہی نکالنا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں کلیدی کردار سیاست دانوں ہی کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ وہ شہر شہر جاکر عوام سے براہِ راست رابطے کے ذریعے انہیں متحرک کرتے ہیں۔ اپنے مخالف سیاستدانوں سے نجات کے لئے کسی دوسرے ادارے یعنی عدلیہ یا ریاست کے طاقتور اداروں کی جانب نہیں دیکھتے۔ آمرانہ روش کا حامل خاص طورپر مودی جیسا سیاستدان مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر ابھرے ’’رضا کاروں‘‘ کے ذریعے مخالف آوازوں کو دبائے رکھتا ہے۔ روایتی میڈیا اس کے روبرو سرنگوں ہوجائے تو حکومت سنبھالنے کے بعد ریاست کو بھی اپنا ’’چاکر‘‘بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اپنے دس سالہ دورِ اقتدار میں نریندر مودی نے ریاستی ایجنسیوں اور عدلیہ کے ساتھ ایسا ہی رویہ اپنائے رکھا۔اس کی وجہ سے عمومی فضا یہ ہی نظر آتی رہی کہ بھارت میں نریندر مودی کے پائے کا کوئی رہ نما باقی نہیں رہا۔ بھارتی عوام کو آئندہ کئی برسوں تک بلکہ اس کے اقتدار سے ہٹ جانے کے بعد بھی مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر اٹھی بھارتیہ جنتا پارٹی ہی کا غلام رہنا ہوگا۔
بھارت کا روایتی میڈیا مودی کے دس سالہ دورِ اقتدار کے دوران ڈھیر ہوگیا تو متبادل آوازوں کے فروغ کیلئے مخلص صحافیوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کو کمال مہارت اور لگن سے استعمال کیا۔ ذاتی طورپر میں برکھا دت کا ذکر تھوڑی شناسائی کی وجہ سے کرنے کو مجبور ہوں۔ بی جے پی کے ٹرولز نے اسے بدترین کردار کشی کا نشانہ بنایا۔ اس کی بدولت وہ روایتی میڈیا میں نوکری کے قابل نہ رہی۔ ہمت ہارنے کے بجائے مگر کیمرہ اٹھاکر شہر شہر جانا شروع ہوگئی۔ کم از کم مجھے فقط اس کی بدولت ہی علم ہوا کہ کرونا کی وبا کے دوران نریندر مودی کی مسلط کردہ لاک ڈائون پالیسی نے غریب ترین دیہاڑی داروں پر کیا قیامت ڈھائی تھی۔ وہ جب شہر شہر خوار ہورہی تھی تو اس کا باپ بھی کرونا کے ہاتھوں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس کے علاج اور بالآخر کریا کرم کی بدولت بھارتی صحت عامہ کے نظام کے بوسیدہ ڈھانچے کو برکھادت نے موثر ترین انداز میں بے نقاب کیا۔
برکھادت کے علاوہ کرن تھاپر بھی مختلف دانشوروں کے ساتھ ون آن ون انٹرویو کے ذریعے مودی کے پھیلائے نفرت انگیز فلسفے کے منفی اثرات کو نہایت دلیری سے بیان کرتا رہا۔ ان دو افراد کے علاوہ یوٹیوبرز کی ایک کثیر تعداد ہے جو بھارت میں ’’مودی کی ’’گودی‘‘ میں بیٹھے میڈیا کے مقابلے میں حقائق لوگوں کے روبرو لاتی رہی۔ مودی حکومت نے سوشل میڈیا پر قائم کئی پلیٹ فارموں کے خلاف ریاستی قوت کو نہایت بے دردی سے استعمال کیا۔ عدلیہ نے عموماََ ریاستی جبر کا شکار ہوئے افراد کی داد رسی کے بجائے مودی حکومت کے جبر کو جائز و واجب ٹھہرایا۔ آزاد منش صحافی مگر ڈٹے رہے اور متبادل حقائق اپنے عوام کے روبرو رکھنے کی لگن میں جتے رہے۔
آزاد منش صحافی خواہ وہ کتنے ہی قدآور کیوں نہ ہوجائیں سیاسی تبدیلیوں کی کلیدی وجہ نہیں ہوسکتے۔ وہ صرف حقائق بیان کرسکتے ہیں۔ تلخ حقائق کو بدلنے کی قوت سیاسی قیادت اور جماعتوں کو میسر ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے راہول گاندھی نے ’’بھارت جوڑو‘‘ کے نام سے اپنے ملک میں ہزاروں کلومیٹر پیدل چل کر عوام سے براہِ راست رابطے کئے۔ اپنے سفر کے دوران وہ جب کسی اہم شہر یا مقام پر عوام کے ہجوم سے خطاب کرتا تو بھارت کا مین سٹریم میڈیا اس کی تقاریر پرمعمول کی نشریات روک کر ’’کٹ‘‘ نہیں کرتاتھا۔ اپنے گھر میں بیٹھے عام ہندوستانی کو علم ہی نہ ہوتا کہ ’’موروثی سیاست‘‘ کا نمائندہ ان دنوں بھارت کے کس صوبے یا شہر میں لوگوں سے رابطہ استوار کرنے میں مصروف ہے۔
بھارتی انتخابات کے نتائج آجانے کے بعد سے میں مودی مخالف سیاستدانوں کے رویے کا تقابل اپنے سیاستدانوں کے اپنائے انداز سے کرتا ہوں۔ یہ سطر پڑھنے کے بعد آپ کو یہ حق پہنچتا ہے کہ سوال اٹھائیں کہ بھائی نصرت سیاستدانوں کے رویے پر رائے زنی کے بجائے اپنے گریبان میں بطور صحافی دیکھنے کی جرات کیوں نہیں دکھاتے۔ سوال برحق ہے اور اس کا دیانتدارانہ جواب یہ ہے کہ ستمبر2018ء میں عمران حکومت کے ہاتھوں ٹی وی سکرین سے فراغت کے بعد مجھے طلعت حسین جیسے ساتھیوں کی مانند یوٹیوب چینل کا رخ کرنا چاہیے تھا۔ شکست خوردگی نے لیکن میری ہمت چھین لی تھی۔ ’’نوائے وقت‘‘ کیلئے یہ کالم لکھ کر دل کی بھڑاس نکالتا رہا۔ پارلیمانی اجلاس ہوتے تو ’’دی نیشن‘‘ کے لئے انگریزی میں پریس کالم بھی ٹائپ کرکے دفتر بھجوادیتا۔ شاید میں یہ سب بھی نہ کرپاتا اگر ہماری مدیر رمیزہ نظامی صاحبہ نے ایک لمحے کو بھی اس ضمن میں غفلت برتنے کی مہلت دی ہوتی۔ ان کی سرپرستی سے کم از کم صحافت سے کامل کنارہ کشی اختیار نہیں کی۔
میری ذات اور دیگرشخصیات ویسے بھی آج کے کالم کا موضوع نہیں۔ مقصد اس حقیقت کو اجاگر کرنا ہے کہ عوام سے مستقل اور براہِ راست رابطہ ہی جمہوری نظام کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اس نظام کے طفیل انتخاب کی بدولت اقتدار میں آنے کے بعد آمرانہ روش اختیار کرتے حکمرانوں کو ان کی اوقات میں رکھیں۔ عوام پر کامل انحصار کی بجائے ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت بتدریج اقتدار کے حصول کے لئے ریاست کے طاقتور اداروں کی سرپرستی کی طلب گار ہونا شروع ہوچکی ہے۔ ملکی سیاست کا 1985ء سے بہت قریبی مشاہدہ مجھے اس قابل نہیں بناسکا کہ میں اس ضمن میں کسی ایک کا جی ہاں کسی ایک سیاسی جماعت کا نام لے سکوں جو ’’ان‘‘ سے رجوع کو آمادہ نہیں۔ ’’کسی ایک‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے میں ان دنوں ’’اصلی تے وڈی‘‘ نظر آتی تحریک انصاف کو بھی مستثنیٰ نہیں ٹھہرارہا۔ اپریل 2022ء میں اقتدار سے فراغت کے بعد وہ عدلیہ سے آسانیوں کی طلب گار ہے۔ عدلیہ کی مگر اپنی محدودات ہیں۔ وہ ان سے تجاوز کرتے ہوئے تحریک انصاف اور اس کے بانی کو ’’غیرمعمولی‘‘ ریلیف فراہم کرتی محسوس ہوئی تو عمران مخالف سیاستدان کو ماضی میں ان کی قیادتوں پر ریاستی اداروں کی جانب سے ہوئی زیادتیاں یاد آنا شروع ہوجائیں گی اور یوں عدلیہ کی غیر جانب داری پر سنگین سوالات اٹھنا شروع ہوجائیں گے۔
عمران خان ہوں یا ان کی مخالف سیاسی قوتیں، ان سب کو اپنا بیانیہ عوام کے روبرو رکھنا ہوگا۔ انہیں قائل کئے بغیر ریاستی اداروں کی مدد سے کسی سیاسی بندوبست کی راہ بنانا ’’محلاتی سازش‘‘ ہی کہلائے گی اور دورِ حاضر میں ایسی سازشوں کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ برطانیہ میں ٹوری پارٹی چند ہی برس قبل بورس جانسن جیسے مقبول ترین رہ نما کی قیادت میں بھاری بھر کم اکثریت کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی۔ وہ مگر چند ہی ماہ تک اپنے منصب پر فائز رہ پایا۔ برطانیہ اب قبل از وقت انتخاب کیلئے تیار ہورہا ہے۔ مودی بھی دس سال تک اپنی من مانیوں کے بعد زمین پر اترنے کو مجبور ہوگیا ہے۔ ہمارے ہاں بھی خودپسنداشرافیہ کو اب عاجزی اختیار کرنا ہوگی۔