لاہور ہائیکورٹ نےنیب ترمیمی صدارتی آرڈیننس کے خلاف درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔تفصیلات کے مطابق عدالت نے درخواست باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کر لی، عدالت نے وفاقی حکومت سمیت دیگر فریقین کو 17 ستمبر کے لیے نوٹس جاری کر دئیے، عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان کو معاونت کے لیے طلب کر لیا۔جسٹس شجاعت علی خان نے 2 صفحات پر مشتمل عبوری تحریری حکم جاری کیا۔درخواست گزار کے وکیل کا کہنا ہے کہ آرڈیننس کے اجراء کے لیے کوئی ہنگامی صورتحال نہیں تھی،ترمیم پاکستان تحریک انصاف کے بانی پر دباؤ ڈالنے کے لیے کی گئی، قائم مقام صدر کی طرف سے آرڈیننس کا اجراء سیاسی مقاصد کے لیے ہے، عدالت محمد ادریس خان بمقابلہ آزاد جموں کشمیر کیس کی روشنی میں غیر قانونی آرڈیننس کے خلاف حکم امتناعی جاری کر سکتی ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ پٹیشن کا موضوع سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے چیلنج نہیں ہے، سپریم کورٹ میں آرڈیننس 1999 کے تحت گرفتار ملزم کے ریمانڈ کی مدت سے متعلق سوال ہے،صدارتی آرڈیننس ملک کی عدالت عظمیٰ کے سامنے براہ راست زیر سماعت ہے، کسی بھی فیصلے کا براہ راست اثر ترمیمی ایکٹ 2022 کے سیکشن 24 میں ترمیم پر پڑے گا۔قائم مقام صدر کے آرڈیننس جاری کرنے کے اختیارات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا،دونوں فریقوں کی طرف سے پیش کردہ تنازعات پر غور کرنے کی ضرورت ہے، فریقین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ آئندہ سماعت سے پہلے اپنا تحریری جواب داخل کریں،ڈپٹی اٹارنی جنرل کے علم میں آنے کے بعد اٹارنی جنرل پاکستان کو رسمی نوٹس جاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔