راولپنڈی حلقہ این اے 55کے انتخابات بخیر و خوبی انجام پائے۔ الیکشن کے پرامن اور منصفانہ انعقاد پر، بلاشبہ حکومت ِ پنجاب مبارک باد کی مستحق ہے۔ یہ الیکشن اگر نشت کے خالی ہوتے ہی کرا دیئے جاتے تو ایسی گہما گہمی اور گرم جوشی کبھی دکھائی نہ دیتی اور نہ ہی یہ حلقہ اس قدر اہمیت اختےار کر جاتا ۔ مسلم لیگ (ن) آرام سے اپنی نشست جیت سکتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور الیکشن کے التوا نے شیخ رشید کو ایک بار پھر سے میدان میں اترنے کی راہ دکھا دی۔ شیخ رشید میڈیا کے آدمی ہیں، اس دوران وہ میڈیا پر چھائے رہے، وہ میڈیا پر اپنی مقبولیت سے یہ توقع کر رہے تھے کہ اب اس حلقے سے وہ اپنے ناراض ووٹرز کو منانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور الیکشن میں میڈیا ہی کی وساطت سے وہ اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے مگر دانشمندی کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اس ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کی بجائے جنرل الیکشن کا انتظار کرتے، یہ غلطی عمران خان کو بھی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ عمران خان نے بھی اس حلقے میں ایک نشست پر اپنا امیدوار کھڑا کر کے اپنا امیج خراب کیا، وہ اپنے امیدوار کو آزاد حیثےت میں طبع آزمائی کا مشورہ دے سکتے تھے کیونکہ اس سے ان کی تحرےک ِ انصاف پر کوئی آنچ نہ آتی اور ویسے بھی الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کے بعد انہیںضمنی الیکشن کی ایک یا دو نشستوں پر خود کو امتحان میں نہیں ڈالنا چاہیے تھا۔ اس سے اسمبلی میں یا ملک میں آپ کیا تبدیلی لا سکتے تھے جب کہ عمران خان اور شیخ رشید دونوں اپنے اپنے انداز میں غریبوں کی زندگی میں انقلاب لانے کی باتےں کرتے ہیں اور ایک عوامی لیڈر کو یہ اندازہ ہونا چاہیے کہ موجودہ سیٹ اپ میں ایک نشست سے کتنی تبدیلی لائی جا سکتی ہے؟ پنجاب میں مسلم لیگ (ن ) کی حکمرانی ہے اور یہ نشست ان کی اپنی نشست تھی جسے میاں نواز شرےف نے خود اپنے امیدوار سے استعفیٰ دلوا کر خالی کروایا تھا اس پر کوئی دوسرا امیدوار کیسے کامیاب ہوتا؟ پنجاب حکومت امن عامہ کی خراب صورتحال کے پیشِ نظر اس نشست پر الیکشن التوا میں رکھے ہوئے تھی۔ شیخ رشید اس حلقے میں انتخابات کے لیے عدالت تک گئے اور بالآخر ایک بار پھر اپنے آپ کو تحتہ ِ مشق بنا ڈالا۔ دہشت گردی کے خطرات تو بہر حال موجود تھے مگر شہباز شریف نے سیکیورٹی کے انتظامات پر خصوصی توجہ دی اور پر امن انتخابات کرا دیئے۔ مسلم لیگ کا امیدوار نمایاں برتری سے جیتا۔ شیخ رشید نے دھاندلی کا الزام لگایا مگر شیخ صاحب اپنی غلطی تسلیم کریں کہ الیکشن کے لیے صرف اچھا مقرر ہو نا ہی کافی نہیں ہوتا۔ وسائل بھی درکار ہوتے ہیں اور پلّے سے کافی خرچ بھی کرنا پڑتا ہے ووٹرز کو کسی بھی طرح گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشنوں تک لانا پڑتا ہے، سیاست میں اپنے اچھے اخلاق، سائشتہ روئیے اور بعض اوقات لوگوں کے دکھ سکھ میں شامل ہو کر، مقامی مسائل حل کر کے بھی متاثر کیا جاتا ہے۔ صرف ٹی وی ٹاک شوز میں غرےبوں کی قسمت بدلنے کی باتوں سے الیکشن میں کامیابی نہیں ملتی۔ جس تبدیلی کی باتےں عمران خان اور شیخ رشید کرتے ہیں اس کے لیے انہیں عوام میں ”ڈور ٹو ڈور“ جا کر ابھی بہت سا ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگ ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر ٹی وی ٹاک شوز شوق سے دیکھتے ہیں مگر طویل قطاروں میں، پہروں کھڑے ہو کے اپنے ضمیر کے ووٹ کے لیے باہر آنا قدرے دشوار کام ہے تا وقتیکہ انہیں مکمل قائل کر کے باہر نہ لایا جائے بہرحال اس الیکشن سے مسلم لیگ (ن) کی ساکھ بحال ہو ئی اورپیپلز پارٹی کو ”دھچکا“ لگا۔ اس الیکشن کے مستقبل قرےب میں متوقع مڈ ٹرم الیکشن پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ آنے والے الیکشن میں وہی سیاسی جماعت کامیاب ہو گی جو عوام کے بنےادی مسائل حل کرنے پر خصوصی توجہ دے گی۔ بقول شاعر
جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا
جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا