شیکسپئر کا ڈر

یہ بارہ سو قبل مسیح کی بات ہے کہ جب یونانی افواج نے ٹرائے شہر کا محاصرہ کیا تھا تو یونانی جنگجو سردار ایکلینر نے شہزادے ہیکٹر کو قتل کر کے اس کی لاش کو اپنے گھوڑے سے باندھا اور تین بار شہر کے گرد چکر لگائے۔ معروف شاعر شیکسپئر کو اپنی قبر اور لاش تک کی بے حرمتی کا اندیشہ تھا۔ شیکسپئر کی قبر پر مندرجہ ذیل کتبہ لکھا ہوا ہے۔
GOOD FRIEND FOR JESU,S SAKE FOR BEAR TO DIG THE DUST ENCLOSED HERE BLEST-BE- THE-MAN- THAT SPARES THESE STONE AND CURST BE THAT, THAT MOVES MY BONES.
ترجمہ: ”اچھے دوست تمہیں عیسیٰ مسیح کی قسم! اس قبر کو نہ کھودو‘ اس قبر کو جو نقصان نہ پہنچائے اسے اللہ بخشے اور میری ہڈیوں کو جو اٹھائے اللہ اسے تباہ کرے۔“
غصہ‘ انتقام‘ نفرت اور حسد جیسے عناصر اس قسم کے کام کرواتے رہے ہیں کہ جس میں انسانی لاش کو گھوڑے سے باندھا جائے یا پھر شکسپئر جیسے عظیم شاعر کو یہ ڈر ہو کہ مرنے کے بعد بھی اس کی بے حرمتی ہو سکتی ہے۔ انسانی زندگیوں کے ساتھ کھیل بھی پرانے زمانوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ امریکہ کی ملکہ ازابیلا کے ہاتھوں ہونے والے مظالم کی داستان میں امریکی خانہ جنگی میں غیر سفید فاموں کو ہراول دستوں میں شامل کر کے اگلی صفوں میں رکھ کر قتل کر دیا گیا تھا اور وہ سفید فاموں کی نسبت کہیں زیادہ مارے گئے تھے حالانکہ مسلمان قلیل تعداد میں تھے او رپھر مر جانے والے اہل خانہ کو بڑی ابتری کا اس لیے سامنا کرنا پڑا تھا کہ وہ الگ الگ شہروں میں نیلام کر دیئے گئے۔ امریکہ کی مٹی میں سے تاریخ کے صفحات پر افریقی مسلمانوں کے نام و نشان موجود نہیں لیکن امریکی زمین میں ان کی قبریں بے نشان ہونے کے باوجود ان کے ہونے کی شہادت دیتی ہیں۔ حضور اکرم نے جن شخصیت کو ”علم کا دروازہ“ کہا تھا‘ انہیں قرآن پاک کی تلاوت کرتے کرتے شہید کر دیا گیا تھا۔ کربلا کی داستان ظلم‘ جبر اور اقتدار کے حصول کا وہ قصہ ہے کہ جس کو سن کر ہر آنکھ پرنم ہو جاتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے کرتے اس قسم کے واقعات کے انداز اور رخ تو بدل گئے مگر کہانی چلتی چلی آرہی ہے۔ پھر عالمی قوتوں کی برتری حاصل کرنے کی خواہش نے سوویت یونین کو نیچا دکھاتے دکھاتے افغانستان کے لیے لکھی گئی کہانی کے حصول کے لیے پاکستان کی سرزمین کا انتخاب کیا اور یوں اسے دہشت گردی کا نشان اور دہشت گردوں کی پناہ گاہ قرار دے دیا گیا۔ آج ہمارے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اتنے افسردہ ہیں کہ کابینہ کے اجلاس میں استعفے پیش کرنے لگے تھے۔ ظاہر ہے گیلانی صاحب بھی کیا کریں ہمارے تو پولیس کے محافظ اور فوج کی قلعہ نما عمارتوں میں بھی دہشت گرد داخل ہو کر دہشت گردی کر جاتے ہیں تو پھر ایسے میں آنجہانی وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو سیکیورٹی کو الگ نہیں کرنا چاہئیے تھا جبکہ یہ بات واضح ہے کہ بہت سارے پاکستانی تو اب دنیا بھر میں خطرات کا شکار ہیںاور پھر ہمارے ملک کی سرحدیں تک غیر محفوظ بنائی جارہی ہیں‘ تو ایسے میں خواہ کوئی مسلمان ہو یا اقلیتی پاکستانی‘ اس قسم کے حالات تو دونوں کے لیے یکساں نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ ابھی چند روز قبل ریمنڈ ڈیوس نے دو بے گناہ پاکستانی قتل کر دیئے اور ریمنڈ ڈیوس کی اپنی غلطی سے ایسے کئی لوگوں کی موجودگی کا پول بھی کھل گیا۔ پاکستان چونکہ ایٹمی قوت ہے اور اسے غیر مستحکم دیکھنے کی خواہشات بھی موجود ہیں اور پھر غیر ملکی ہاتھوں کی موجودگی کے ثبوت اور شواہد بھی مل چکے ہیں جبکہ اس ملک کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کا تاحال کوئی سراغ نہیں ملا۔
آنجہانی شہباز بھٹی کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے منور حسن نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر کو بلیک واٹر نے قتل کیا ہے۔ ان سارے حالات میں جبکہ خدشہ پایا جارہا ہے کہ ملک میں کئی ریمنڈ ڈیوس موجود ہیں جو کہ طالبان کے روپ میں سازشیں کر رہے ہیں اور فوج پرحملے کی سازش کر رہے ہیں۔ تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ان بڑے اداروںکے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں تو پھر ہم سب پاکستانی بھی خطرے میں ہیں اور اگر یہ ملک یونہی خطرات میں گھرا رہے گا تو پھر شیکسپئر کی قبر کے کتبے کی طرح یہ کہنا پڑے گا کہ ”اچھے دوست تمہیں عیسیٰ کی قسم.... ہم سب پاکستانیوں کو امن اور چین کے ساتھ جینے دو!!۔“

ای پیپر دی نیشن