خاموشی اک عذاب الیم ہوتی ہے ‘ آتشِ سکوت میں جل کر بجھنے والوں سے بہتر ہیں وہ لوگ کہ جو تکلم کرکے نئی راہیں تراشنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں.... بیگم صفیہ اسحاق کی تصنیف ”مجید نظامی عہد ساز صحافی“ کی آج لاہور میں تقریب رونمائی ہے۔ میں بیگم صفیہ اسحاق کو اسلام آباد سے ”پہلی“ مبارکباد بھیج رہی ہوں.... کیونکہ انہوں نے عمر بھر نئی راہیں تراش کر منزل کا راستہ دکھانے والے مجید نظامی کے عہد ساز صحافی ہونے کے بارے میں اس کتاب کو اس طرح لکھ کر لہو گرم کرنے والوں کو نیا جذبہ عطا کرنے کا فرض ادا کیا ہے.... اور یہ فرض عورتیں ادا کریں تو بیداری کی لہر مردوں میں زیادہ شدت سے پیدا ہوتی ہے مگر پھر باشعور عورتیں بھی میدان عمل میں عملی طور پر کام کرنے کا خواب دیکھنے لگتی ہیں اور صفیہ اسحاق تو مسلم لیگی خاتون رہنما ہیں کہ جن لوگوں نے روشنی کی جستجو کا آغاز کیا تھا.... کوئی شخص عہد ساز کیسے ہوتا ہے؟.... کوئی شخص عہد ساز ایسے ہو سکتا ہے کہ جو ذلت و بد بختی کی کہانی کسی کو بھی دہرانے نہیں دیتا.... اور جو رات کے سینے میں اپنا پرچم گاڑ سکتا ہے.... ورنہ جکڑے ہوئے ہاتھوں‘ پیروں اور جھکے ہوئے گھٹنوں والے ”عہد ساز“ نہیں ہوا کرتے زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فیصلے کرنے والے اور فیصلے کرنے پر مجبور کر دینے والے عہد ساز ہوا کرتے ہیں اور پھر نقارے پر چوب لگا کر ہلچل مچا دینے والے عہد ساز ہوا کرتے ہیں.... اور مجید نظامی کے لئے صفیہ اسحاق کی کتاب کے عنوان میں ”عہد ساز“ کا لفظ انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ بیٹھتا ہے.... مجید نظامی اپنی ہی دنیا اور سوچ و فکر کی بلندی پر مزے سے برا جمان ہو کر اپنا فرض نبھاتے چلے جا رہے ہیں اور انہی کا حوصلہ ہے کہ ”صدر پاکستان“ کا خطاب حاصل کرنے کی آفرکو رد کر دیا اور خوشی خوشی ”عہد ساز صحافی“ کہلوانے پر راضی ہیں ۔میں نے جب مجید نظامی کی بائیو گرافی لکھی تھی تو ان کے کاٹ دار جملوں کو ”جوں کا توں“پیش کیا تھا....آج عبدالقادر حسن نے جہاں اپنے ”فراری“ ہونے کا اعتراف کیا ہے وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ ....مجید نظامی کی طنز نگاری میں کوئی مد مقابل نہیں ہے.... عبدالقادر حسن کی عظمت ہے کیونکہ ”اعتراف“ کر لینے کی عادت سب کو پڑ جائے تو اس قوم کی تقدیر سنور سکتی ہے.... میں کتاب ”جب تک میں زندہ ہوں“ کہ صرف عنوانات پڑھوں تو جناب مجید نظامی کی جرات کی تصدیق ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر کاٹ دار جملے بھی سامنے آتے چلے جاتے ہیں.... بات مجید نظامی کے استاد محترم کی ”توں آپی ہوویں گا“ سے شروع ہوتی ہے اور ہندو بنیئے کی ذہنیت کا احاطہ کرتے کرتے اپنے حکمرانوں بھٹو‘ ضیاءالحق‘ نوازشریف اور پھر پرویز مشرف اور صدر زرداری تک آ پہنچتی ہے میں امریکہ‘ لندن‘ مسقط‘ قطر‘ دوبئی‘ ابوظہبی‘ انڈیا اور پھر اندرون ملک ہر شہر میں گئی ہر جگہ پر اور ہر مقام پر پاکستان کے وجود اور مجید نظامی کی موجودگی کا ذکر اور احساس اس طرح ساتھ ساتھ لوگوں کی زبانوں پر ملتا رہا ہے کہ جیسے چاند اور چاندنی کی روشنی ہوتی ہے دنیا بھر کے لوگ پاکستان اور مجید نظامی کی ذات کو علیحدہ علیحدہ کرکے نہیں دیکھتے ان لوگوں کی عظیم امیدیں اگر وطن کے لئے ہیں تو ساری توقعات مجید نظامی سے وابستہ ہیں اور پاکستان کے اندر کسی لیڈر شپ کے خلاءنے تنہا پڑتی عوام کو اور بھی زیادہ مجید نظامی کے قریب کر دیا ہے اور پھر سوچ میں کہ تین بائی پاس کروا کر کتنی بڑی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر موجود ہے مگر مجید نظامی کے پائے استقلال میں ذرہ بھر بھی کمی نہیں آتی.... مجید نظامی کی بھی اس وطن اور عوام کے ساتھ امیدیں اور خواب گلاب کے پھولوں کی طرح حسین تر اور تازہ پھلوں کی طرح شیریں تر ہیں میں حیران ہوتی ہوں کہ اس ملک کے اندر جب بھی مایوسی کی ذرا سی ہوا چلتی ہے تو مجید نظامی کی کوئی ایسی بات یا جملہ یا بیان سامنے آ جاتا ہے کہ ہر شخص کے دل کی دھڑکن چھنا چھن نئے انداز سے رقص کرنے لگتی ہے.... ایسے انداز سے کہ جس میں پھر سے جوش و ولولہ نظر آنے لگتا ہے مجید نظامی نہ صرف بقول میاں آفتاب فرخ ”نظریاتی سرحدوں کے کمانڈر انچیف “ ہیں بلکہ میرے مطابق تو دوسرے ”قائداعظم “ ہیں اور ان کے اندر دراصل قائداعظم کی روح سرائیت کر چکی ہے خوش لباس‘ خوش گفتار‘ وقت کی پابندی کرنے والے اور پھر پیسہ پیسہ بچانے والے تاکہ اس ملک کی اور لوگوں کی تقدیر سنورتی رہے .... میں خوش قسمت ہوں کہ خود کو ان کی بیٹی تصور کرتی ہوں....حالانکہ جانتی ہوں کہ یہ کانٹوں کا راستہ ہے اور عہد ساز صحافی کے پیچھے چل کر صحافت کرنا آسان بات نہیں ہے.... پاکستان کی کون سی بیٹی ہوگی کہ جو قائداعظم جیسی شخصیت کی بیٹی بننے کی خواہش نہ کرے گی .... میں بیگم صفیہ اسحاق کو کتاب ”مجید نظامی عہد ساز صحافی“ کی اشاعت اور تقریب رونمائی پر مبارکباد دیتے ہوئے یہ درخواست کروں گی کہ ہمارے FACT فورم کے زیر اہتمام ایک تقریب اسلام آباد میں بھی ہونی چاہیئے اور مجید نظامی سے بھی یہ درخواست کروں گی کہ اسلام آباد کی تقریب میں بھی تشریف لائیں گے کیونکہ اب سردیاں جا چکی ہیں!! ”یاد رہے کہ نظامی صاحب سخت سردی میں اسلام آباد نہیں آتے“
”مجید نظامی عہد ساز صحافی“
Mar 07, 2013