پاکستان آجکل جن حالات سے گزر رہا ہے وہ ہر ذی ہوش پاکستانی کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کو نہ پاکستان کی فکر ہے نہ وہ اس تباہی کے اسباب جاننے کی زحمت گوارا کرتے ہیں نہ ہی پاکستان کے دشمن کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج سے کئی سال قبل فلپ کورہن نے دو کتابیں لکھی تھیں ایک کا نام India Emrging as Big Power اور دوسری کا نام Pakistan Idea تھا۔ ان دونوں کتابوں میں ان کا نقطہ نظریہ تھا کہ پاکستان دنیا کے نقشہ پر نہیں رہے گا اور اگر رہے گا تو بھارت کا طفیلی ملک بن کر رہ سکتا ہے اور اس نے جو تیسری کتاب مرتب کی اس کا نام Future of Pakistan تھا۔ اس کتاب میں مختلف دانشوروں کے مضامین کا مجموعہ تھا۔ ان لکھاریوں میں امریکی، یورپی، بھارتی اور پاکستانی لکھاری شامل تھے۔ امریکی، یورپی، بھارتی لکھاریوں کی رائے میں پاکستان 2014ءتک ختم ہو جائے گا۔ اسکی اکانومی پہلے تباہ ہو گی پھر فرقہ وارانہ فسادات سے تباہی آئے گی، پھر لسانی فسادات ہوں گے، صوبوں کی آپس میں مخاصمت ہو گی، پاکستان میں انارکی پھیلے گی، لاقانونیت حد سے بڑھ جائے گے۔ پہلے پاکستان کے ٹکڑے ہوں گے اور بالآخر 2014ءمیں پاکستان دنیا کے نقشہ پر نہیں رہے گا۔ فلپ کورہن امریکی سینٹ میں بھی پیش ہو کر اپنا نقطہ نظر پیش کرتا رہتا ہے۔
اِدھر فلپ کورہن اپنے خیالات کتابوں کی شکل میں پیش کر رہے تھے اُدھر پینٹاگون نے دو نقشے جاری کئے ایک نیو ورلڈ آرڈر کے تحت دنیا کے ملکوں کی نئی حد بندیاں کی گئی تھیں جن میں تمام اسلامی ملکوں مثلاً سعودی عرب، ترکی، ایران، شام، مصر، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کے ٹکڑے کرنے کا عندیہ دیا ہوا تھا دوسرا پاکستان کے ٹکڑے کرنے کا عندیہ درج تھا۔
بھارت کے کرشنا کی ایک کتاب مارکیٹ میں آئی ہے جس کے ٹائٹل صفحہ پر محترمہ ربانی کھر اور کرشنا کی فوٹو دی گئی ہے اس میں یہ بھارتی وزیر اور دانشور فرماتے ہیں کہ ہندو مسلم کی صلح کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔ بھارت اور پاکستان میں دشمنی کی آگ سلگتی رہے گی۔ کبھی چواتی جلے گی اور کبھی بھانبڑ ہو گا اور کبھی مکمل جنگ شروع ہو گی اس لئے بھارت کو پاکستان سے جنگ لڑنے کی تیاری رکھنی چاہئے۔ جس نصیحت پر بھارت عمل کرتے ہوئے جنگی جنون کے تحت اسلحہ کے انبار لگا رہا ہے، ہیلی کاپٹر، جہاز، بحری ایٹمی آبدوزیں خرید رہا ہے اور دفاعی بجٹ میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ کشمیر سے آنے والے پاکستان دریاﺅں پر ڈیم بنا کر پاکستان کو بنجر کرنے کی سازشیں کر رہا ہے۔ کشن گنگا ڈیم بنانے کی اجازت بین الاقوامی عدالت سے بھی لے چکا ہے جبکہ دریائے نیلم پر ڈیم پاکستان میں اب نہیں بن سکے گا اور بھارت چناب کا پانی روکنے کی اہلیت حاصل کر چکا ہے۔ اب اس نے دریائے جہلم پر وولر بیراج مکمل کرنے کیلئے کام شروع کر دیا ہے یعنی پاکستانی دریاﺅں جہلم، چناب کا پانی روکنے کی اہلیت حاصل کر لے گا۔ دریائے سندھ کے منبع پر پانی روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے دریائے سندھ کا پانی بھی کافی حد تک روک لیا جائے گا۔ پاکستان میں جو راوی، ستلج دریارﺅں کا Spillover آتا تھا وہ رنجیت ڈیم بنا کر دریائے بیاس میں شامل کر دیا گیا ہے گویا کہ پاکستان کو بنجر کرنے کے تمام منصوبوں پر عمل ہو رہا ہے۔ ہم بجائے آبی بھارتی یلغار کو روکنے کے اقدام کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔ موجودہ حالات میں نئے ایشو لانا پاکستان کیلئے زہرِ قاتل ہے۔ انکی خواہش کے مطابق ہم نے مرکز کو 18ویں ترمیم کے ذریعے کمزور کر لیا ہے نئے صوبوں کے شوشے سے پاکستان کو اور کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے نئے صوبے اور مغربی پاکستان کو توڑنے کے منصوبوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ کہیں بلوچستان کو بلوچ اور پٹھان صوبے میں تقسیم کے ارادے ہیں۔ سرائیکی صوبہ کا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ خدا کیلئے اہل اقتدار اور اپوزیشن لیڈر بین الاقوامی سازشوں کو ملحوظ خاطر رکھیں اور انکا تدارک کرنے کی کوشش کریں اور کسی کا آلہ کار بننے سے گریز کریں۔ کیا اہل اقتدار اور اپوزیشن لیڈر نااہل اور نالائق ہیں کہ دشمن کو ہی نہیں پہچانتے۔ امین فہیم بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کیلئے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں اور نواز شریف بھی بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھانے کی بات کرتے ہیں، یہ کوئی سیاستدان نہیں دیکھ رہا کہ بھارت کے کیا ارادے ہیں۔ سیاستدان کیا چاہتے ہیں پاکستانی بھائی بھائی ایک دوسرے کو قتل کریں؟ ہزارہ برادری کے سینکڑوں لوگوں کا متعدد بار قتل ہونا قابل مذمت ہے۔ صرف بیان دینا کافی نہیں حکومت یا اپوزیشن نے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے۔ رحمان ملک صرف الزام لگاتے ہیں لیکن کوئی قابل قدر اقدامات ابھی تک نہیں ہو سکے۔ کوئٹہ میں سینکڑوں ہزارہ برادری کے لوگوں کا قتل عام کیا گیا کوئی تدارک نہیں ہوا۔ دشمنوں نے کراچی میں سینکڑوں کی تعداد میں امام بارگاہ سے نماز ادا کرنے کے بعد نکلتے ہوئے لوگوں کو نشانہ بنا کر موت کی نیند سلا دیا گیا۔ دوسری طرف شنید ہے کہ پولیس خاتون مشیر کی منگنی کی رسم میں مصروف تھی ۔ بجائے اس کے کہ ملک میں انارکی ختم کرنے کے اہل اقتدار اور اپوزیشن لیڈر مل کر اقدام کریں سیاسی فوائد اٹھانے کے بیان دے رہے ہیں۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کیلئے غیر مہذب الفاظ استعمال کر رہے ہیں اور رحمن ملک حکومت پنجاب کو اس سب انارکی کے ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ خدا کیلئے ہوش کا دامن تھامیں ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے جہاں تک پاکستان کی سالمیت کا تعلق ہے اہل اقتدار اور اپوزیشن مل کر اقدام کریں۔ جوڈیشری کے ججز بیانات دے رہے ہیں۔ جمہوریت اچھا نظام ہے لیکن یہ کیسی جمہو ریت ہے جس میں لا اینڈ آرڈر نام کی کوئی چیز نہیں ‘انسانوں کے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہو، کوئی انسدادی کارروائی ممکن ہی نہیں۔
لا اینڈ آرڈر کی تباہی ناظم سسٹم سے ہوئی اور دوسرے مجسٹریٹوں کو ایگزیکٹو کی بجائے جوڈیشری کے ماتحت کرنے سے انارکی پھیلی۔ سندھ، سرحد، بلوچستان میں ناظم سسٹم ختم کر دیا گیا ہے لیکن پنجاب میں آدھا تیتر آدھا بٹیر بھی چل رہا ہے۔ پولیس ایکٹ 2001ءکو ابھی ختم نہیں کیا گیا اور لوکل باڈیز ایکٹ 1969ءکو بھی رائج نہیں کیا گیا۔ اسکے علاوہ پاکستان پینل کوڈ اور کریمنل پروسیجر کوڈ میں جو ترامیم کی گئی تھیں ان کو دوبارہ ترمیم کر کے 2001ءسے پہلی پوزیشن نہ کی جائے تو لا اینڈ آرڈر درست نہیں ہو سکتا۔ جب قرضے معاف کرنے کی سکیمیں ہوں تو اہل اقتدار اہل پوزیشن اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک منٹ میں ترمیم یا نیا قانون بنا لیا جاتا ہے لیکن جب ملکی انارکی ختم کرنے کی ترمیم ہو تو اس کو باہر کرنے کیلئے اتفاق نہیں ہو سکتا۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ملک لوٹنے کے اقدام پر سب کو افتاق ہے خواہ اہل اقتدار ہوں خواہ اہل اپوزیشن ہو، لیکن ملکی مفاد کے قانون پر اتفاق نہیں ہو سکتا۔ امریکہ میں صدر دو بار رہ سکتا ہے لیکن تیسری بار نہیں ہو سکتا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے مل کر مشرف کے وقت کے قانون میں جو تبدیلی کرائی ہے اسے واپس لیا جائے۔ آیئن کی رو سے 17 گریڈ کا افسر صرف پبلک سروس کمشن کے مقابلہ کے امتحان کے ذریعے بھرتی ہو سکتے ہیں، کتنی ستم ظریفی ہے کہ پنجاب میں سول جج کے سلیکشن کے اختیارات جو مقابلہ کے امتحان سے پبلک سروس کمشن کراتی تھی وہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے حکم سے پبلک سروس کمشن سے ہائی کورٹ میں منگوا کر چیف جسٹس نے سلیکٹ کئے۔ پبلک سروس کمیشن میں 12 پیپر سول جج کے ہوتے ہیں ہائی کورٹ میں ایسا نہیں ہوا سلیکشن کی گئی جو آ ئین کی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ ہر اہم معاملہ میں سوموٹو اختیار استعمال کرتے ہوئے کیس جو سُن کر فیصلہ کرتی ہے لیکن اس پر خاموش کیوں ہے؟
زیادہ تر نواز شریف اور شہباز شریف کے دور حکومت میں یہ غیر آئینی اقدام کیا گیا اس پر ایکشن سپریم کورٹ لے۔ دوسرے جوڈیشری کے سول جج اور ایڈیشنل سول جج نواز شریف اور شہباز شریف کے بھرتی کردہ ہیں ان کو الیکشن کمیشن الیکشن ڈیوٹی پر لگا لے گا تو انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔
اس لئے الیکشن ڈیوٹی پر اگر فیئر ۔ انڈیپنڈنٹ الیکشن کرانے ہیں تو فوجی افسر تعینات ہونے چاہئیں۔ملک اس وقت بین الاقوامی سازشوں میں گِھرا ہوا ہے۔ اس وقت اہل اقتدار، اہل اپوزیشن، جوڈیشری اور فوجی قیادت کو مل بیٹھ کر ملک کو بھنور سے نکالنے کی تدابیر اختیار کرنی چاہئے۔