صدر مملکت آصف علی زرداری ملتان میں ایک رات قیام ‘ اور رحیم یار خان کے مختصر دورہ کے بعد واپس ایوان صدر پہنچ چکے ہیں۔ اس دورے کے اصل مقاصد کیا تھے وہ واضح نہیں ہو سکے۔ دورے کا پروگرام بھی عجلت میں مرتب کیا گیا۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی لاہور میں تھے انہیں پیغام دیا گیا کہ وہ ملتان پہنچیں اور اس دورے کے انتظامات کریں۔ بظاہر صدر مملکت نے ملتان میں اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کرنا تھیں اور عام قیاس یہ تھا کہ صدر مملکت علاقے کی بااثر شخصیات کو پیپلز پارٹی میں شامل کروانے کیلئے آ رہے ہیں لیکن ”دیکھنے ہم بھی گئے پہ تماشہ نہ ہوا“ کے مصداق کوئی چونکا دینے والا واقعہ نہ ہوا۔ دو اہم شخصیات صدر مملکت سے ملنے کیلئے گیلانی ہا¶س گئیں ان میں ایک سابق صوبائی وزیر حافظ محمد اقبال خاں خاکوانی.... اور دوسرے سابق ضلع ناظم ملتان‘ ممتاز صنعتکار میاں فیصل مختار احمد ہیں۔ حافظ محمد اقبال خاں خاکوانی نے سیاست کا آغاز مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے کیا تھا۔ جلاوطنی کے دوران میاں نواز شریف نے سرور پیلس میں چند نمازیں بھی حافظ اقبال خاں خاکوانی کی امامت میں ادا کی تھیں۔ واپس آئے تو 302 کے کیس میں پھنسی جان بچانے کے لئے مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوئے۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے مشیر بھی رہے۔ مسلم لیگ (ق) کا سورج زوال کی جانب گامزن ہوا تو انہوں نے دوبارہ مسلم لیگ (ن) کی جانب رخ کیا لیکن ہر ممکن کوشش کے باوجود انہیں پذیرائی حاصل نہ ہو پائی۔ حافظ اقبال خان خاکوانی مایوس ہو کر تحریک انصاف میں بھی جا سکتے تھے لیکن جس حلقے سے وہ انتخاب لڑنا چاہتے ہیں وہاں مخدوم جاوید ہاشمی نے بھی الیکشن لڑنا ہے اور وہ تحریک انصاف کے صدر ہیں۔ اب ان کے لئے صرف پیپلز پارٹی باقی بچی ہے اور کئی ماہ قبل وہ سید یوسف رضا گیلانی سے عہد و پیمان کر چکے ہیں۔ اس طرح صدر مملکت سے ملاقات تجدید عہد تو ہو سکتی ہے‘ ”نیا رومانس “قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دوسرے ملاقاتی میاں فیصل مختار تھے۔ میاں فیصل مختار بلدیاتی سیاست کے ذریعے نمودار ہوئے۔ ملک کے بڑے صنعتکاروں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ بھی مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوئے اور ضلع ناظم ملتان بنے۔ دامن صاف ہونے کی وجہ سے اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ صدر مملکت اور سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے ان کی یہ پہلی ملاقات نہیں ہے وہ ملتے رہے ہیں۔ ہر ملاقات کے وقت خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں گے۔ حالیہ ملاقات کے بعد بھی یہ عام قیاس تھا کہ وہ اس ملاقات کے فوراً بعد پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیں گے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ اس طرح صدر مملکت کے قیام کے دوران کوئی ”انہونی“ نظر نہیں آئی تاہم پیپلز پارٹی کے بعض رہنما اور اراکین اسمبلی ان سے ملنے کیلئے گیلانی ہا¶س تک نہ گئے۔ ان میں سابق سپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام‘ وہاڑی سے قومی اسمبلی کی رکن نتاشہ دولتانہ‘ شجاع آباد سے قومی اسمبلی کے رکن نواب لیاقت علی خان‘ وہاڑی سے محمود حیات عرف ٹوچی خان اور ملتان کے احمد حسن ڈیہڑ کے نام قابل ذکر ہیں۔حقائق کیا ہیں آئندہ چند روز میں منظرعام پر آ جائیں گے۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے ملک احمد حسن ڈیہڑ 2008ءکے الیکشن میں سید یوسف رضا گیلانی کے قومی حلقہ میں شامل صوبائی نشست سے کامیاب ہوئے۔ انہیں یہ گلہ رہتا تھا کہ سابق وزیراعظم کے صاحبزادگان انہیں ذاتی ملازم کی طرح سمجھتے ہیں۔ پھر سابق ایم پی اے ملک اسحاق بچہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تو ناراض ہو کر گھر بیٹھ گئے لیکن اس وقت سید یوسف رضا گیلانی کو نااہل ہونے کے باعث اپنے صاحبزادے عبدالقادر گیلانی کی حمایت کے لئے ان کی مدد درکار تھی انہوں نے منا لیا اور احمد حسن ڈیہڑ بھی یہ کہہ کر مان گئے کہ سید یوسف رضا گیلانی ان کے لئے والد کا درجہ رکھتے ہیں لیکن اب اطلاعات کے مطابق ان کے رابطے بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہیں۔ ان رابطوں کے بھی آئندہ ہفتے عشرے میں نتائج سامنے آ جائیں گے۔ نواب لیاقت کے بھی سید یوسف رضا گیلانی سے گلے شکو¶ں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ اس طرح صدر مملکت کے دورہ ملتان کا یہ نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ کوئی نئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ پہلے سے جو کچھ جھولی میں تھا وہ اس جھولی میں بے شمار سوراخ ہونے کی وجہ سے کافی کچھ نکل گیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی بہاولپور اور رحیم یار خان کے تسلسل کے ساتھ دورے کر رہے ہیں۔ یہاں کے متعدد سیاستدانوں کے ساتھ بھی ان کے رابطے ہیں۔ سب سے اہم فیصلہ اس خطے کے چند سیاسی خانوادوں کا ہے جو یہ کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کوئی متفقہ فیصلہ کریں۔ ان میں ملتان کا بوسن خاندان‘ ڈیرہ غازیخان کا لغاری خاندان‘ لودھراں کا کانجو خاندان‘ ضلع وہاڑی کا کھچی خاندان‘ ضلع خانیوال کا ہراج خاندان شامل ہیں۔ حال ہی میں سابق وزیر زراعت ملک سکندر حیات بوسن نے ملتان سے چوٹی زیریں (ڈیرہ غازیخان) جا کر سردار جمال خاں لغاری اور سردار اویس لغاری سے ملاقات کی ہے۔ اس کے بعد لغاری سرداروں کا یہ اعلان بھی سامنے آیا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر سیاسی دھماکہ کریں گے۔ لغاری خاندان کو بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کسی قیمت میں پارٹی میں واپس لینے کے لئے تیار نہیں تھی۔ تحریک انصاف میں سردار جمال اور سردار اویس لغاری شامل ہوئے تھے لیکن پارلیمنٹ کی رکنیت سے مستعفی نہیں ہوئے تھے۔ اب توقع کی جا رہی ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کریں گے۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،