پاکستان کے تیسرے سیاسی مرکز فیصل آباد میں انتخابی سرگرمیاں غیررسمی طورپر جاری ہیں اور ان سرگرمیوں میں اب تحریک انصاف بھی شامل ہو گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کی طرح تحریک انصاف نے بھی امیدواروں سے درخواستیں طلب کر لی ہیں اور اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز 23مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ تحریک انصاف 23مارچ کو جبکہ پاکستان کا نظام ایک عبوری وزیراعظم چلا رہے ہوں گے۔ اپنی عوامی قوت کا دوسری بار مظاہرہ کرے گی اور مینار پاکستان کے سایہ تلے ہونے والا تحریک انصاف کا یہ جلسہ 30اکتوبر کے جلسہ سے بڑا ہو گا یا نہیں اس کا فیصلہ تو جلسہ کے انعقاد پر ہو گا۔ عام خیال یہی ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے منظم جلسہ کا ریکارڈ توڑنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ آٹھ بازاروں کے شہر فیصل آباد سے اس جلسہ میں بڑی تعداد میں تحریک انصاف کے متوقع امیدوار شرکت کریں گے چونکہ یہ جلسہ تحریک انصاف کا پہلا جلسہ ہو گا جو تحریک انصاف کے انتخابی میدان میں داخل ہونے کا اعلان ہو گا اور اس جلسہ سے پنجاب میں ہونے والے انتخابی معرکہ کاخاکہ بھی کسی حد تک سامنے آ جائے گا۔ فیصل آباد کی قومی اور صوبائی نشستوں پر تحریک انصاف کے کون سے پہلوان اکھاڑے میں داخل ہوں گے ان کی عوامی قوت کیا ہو گی یہ فیصلہ تو پہلوانوں کے چہرے منظرعام پر آنے کے بعد ہی ہو گا لیکن لاہور کا جلسہ ”ہتھ جوڑی“ جلسہ ضرور ہو گا۔ بظاہر تو فیصل آباد میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کے درمیان ہی روایتی مقابلہ کی توقع ہے لیکن حالات جس تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں پر تحریک انصاف کے نئے اور پرانے چہرے آسیب کاسایہ ضرور ثابت ہوں گے اور اگر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان کوئی انتخابی سمجھوتہ ہو جاتا ہے جس کا زیادہ امکان ہے اور دیہی حلقوں کی بجائے اربن حلقوں میں صورت حال قطعی طور پر مختلف ہو گی کیونکہ اربن حلقوں کی انتخابی مہم میں پہلی مرتبہ نئی نسل کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی اپنا کردار ادا کریں گی اور ان کے کردار کو کسی خوش فہمی کی بناءپر نظرانداز کرنا حماقت ہو گی اب جب کہ پانچ سال کی آئینی مدت مکمل ہونے پر مرکز اور صوبوں میں حکومتیں سبکدوش ہونے والی ہیں۔ وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سے ایک معاہدہ کیا ہے اور اس معاہدہ کے تحت میاںمحمد شہبازشریف نے ایک بین الاقوامی ادارے کو تین اہم منصوبوں کی جانچ پڑتال کرنے کی دعوت دی ہے اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل موجودہ حکومت کے خاتمہ سے قبل اپنی رپورٹ مرتب کرے گی اسے عوام کی عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی ق لیگ اور دوسری جماعتوں کی طرف سے میٹرو بس سروس لیپ ٹاپ اور سولر لیمپ کی تقسیم پر اعتراضات اور کرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ جاری ہے۔ جو الزام پیپلزپارٹی خود اپنی مفاہمانہ ترپ چال کی بناءپر نہیں لگانا چاہتی وہ ڈپٹی وزیراعظم چوہدری پرویزالٰہی کی زبان سے لگوا کر پھر اس پر طرح دیتی ہے۔ میاں محمد شہبازشریف نے تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سے معاہدہ کی صورت میں خود کو احتساب کے لئے پیش کر دیا لیکن پیپلزپارٹی کی دلیری اور حوصلہ کی داد دینی چاہیے کہ پانچ برسوں سے وطن عزیز کی فضا¶ں میں تمام قومی اداروں میں ہونے والی کرپشن کی خوفناک داستانوں کی صدائیں گونج رہی ہیں اور اس گونج سے کان پھٹ رہے ہیں۔ بہت سے اہم اداروں اور شخصیات کے خلاف عدالت عظمیٰ اور دوسری عدالتوں میں مقدمات زیرسماعت ہیں اور اربوں روپے کے کرپشن کے کیس سامنے آنے کے باوجود پیپلزپارٹی کی قیادت خود بایزید بسطامی ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے جبکہ پورے ملک میں لوٹ مار کا بازار لگا ہوا ہے۔ ماضی میں لاکھوں کی بدعنوانی ہوتی تو سیاسی اور عوامی حلقے آسمان سر پر اٹھا لیتے۔ لیکن اب بات اربوں تک جا پہنچی ہے اور نعرہ مجبوری ہے زرداری بہت ضروری ہے کا بلند ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ وائٹ کالر کرائم ایسی باریکی سے کئے جاتے ہیں کہ کوئی ثبوت نہیں چھوڑا جاتا۔ لیکن اب یہ خوف بھی نہیں اسی لئے تو صدر آصف علی زرداری نے میاں محمد شہبازشریف کی طرح خود کو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے حوالہ کرنے کا سوچا تک نہیں بلکہ ایسے تکلیف کی ضرورت تک محسوس نہیں کی۔ الیکشن کا شیڈول جاری ہونے میں دو ہفتے رہ گئے ہیں اور امیدواروں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھولنے شروع کر دیئے ہیں۔ پیرصاحب پگاڑا درست کہتے ہیں کہ انتخابات پیسے کا کھیل ہوں گے بازار نیلام خوب سجے گا اور خون خرابہ بھی ہو گا اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کسی پارٹی کا فوکس عام آدمی اور پاکستان کے مسائل نہیں بلکہ اقتدار ہے اور جمہوریت کے پاسبان اور جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے اصل جمہورے اس قدر ظالمانہ بلکہ بے رحمانہ سلوک کر رہے ہیں کہ عوام کے خون کے آخری قطرہ تک نچوڑنے تک بے تاب ہیں۔ اگر عوام نے اپنی پرچی کو احتساب کی قوت بنایا تو حالات بدل سکتے ہیں ورنہ پیپلزپارٹی والے تو کہتے ہیں کہ اگر ہمیں قومی اسمبلی کی 80نشستیں بھی حاصل ہو گئیں تو ہماری اتحادی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ ہم آج کی طرح کل بھی حکمران ہوں گے کیا یہ قومی بدقسمتی نہیں ہو گی؟