باوجود یکہ بڑے بڑے سورمائوں نے ملٹری آپریشن کے حق میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ وزیر اعظم کو اور پاکستانی افواج کو لعن طعن کیا۔ اُن کو بزدل بھی کہا اور متعدد کمزوریوں کے طعنے بھی دیئے ۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ہے کہ موجودہ حکومت نے مذاکرات کرنے کا فیصلہ صادر فرمایا ۔ اس فیصلے کا سہرا میاں نواز شریف کے حصے میں آتا ہے کیونکہ ملٹری آپریشن کرنے کا دبائو اتنا زیادہ تھا کہ بڑے بڑے پختہ ذہن بھی لڑ کھڑا گئے تھے۔ اس فیصلے پر وزیر اعظم پاکستان مبارک باد کے مستحق ہیں۔ پاکستانی قوم کو یاد ہوگا کہ جب جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں مذاکرات کے برعکس ملٹری آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو تقریباً سارے مغربی پاکستان کے زعماء اور دانشوروں نے اس کا خیر مقدم کیا تھا۔ کئی اہم شخصیات نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’پاکستان کو بچا لیا گیا ہے‘‘ لیکن ہوا یہ کہ یہ غلط فیصلہ ہی پاکستان کو دولخت ہونے کا آخری کیل ثابت ہوا تھا۔ ابھی بھی ملٹری آپریشن کا راستہ اتنا ہی خطرناک تھا اور اس کے بھیانک نتائج اخذ کرنے کے امکانات تھے ۔ پس ہم سب کو دعاء کرنی چاہئے کہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنارہوں۔
مذاکرات کا انعقاد بذات خود اہم تو ہے کیونکہ منزل تک پہنچنے کیلئے پہلا قدم لینا ناگزیر ہوتا ہے۔ لیکن مذاکراتی ٹیموں کو۔ حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو(بشمول افواج پاکستان اور حکومت مخالف جماعتوں ) میڈیا کے نمائندوں کو اور عوام الناس کو اچھی طرح غور کرنا چاہئے کہ مذاکرات کو بااثر اور مستقل بنانے کے لئے دیر بھی لگے گی اور گاہے بگاہے اختلافات بھی نمودار ہونگے۔ ماضی کے کئی سالوں میں فاٹا اور صوبائی حکومت کے درمیان متعدد معاہدے کئے گئے تھے جو جلد بازی پر مبنی اور ادھورے فیصلے تھے اور جن پر عملدرآمد نہ ہو سکا ۔ یہ کبھی واضح نہ تھا کہ کس کی غلطی تھی یا کس نے وعدہ خلافی کی۔ قومی حکومت کے وسائل زیادہ ہیں اور ان کے نقطہ نظر کو زیادہ تشہیر دی جا سکتی ہے۔ اس لئے عموماً یہ تاثر اخذ کیا گیا تھا کہ فاٹااور مالا کنڈ کے جنگجوئوں نے وعدہ خلافی کی تھی۔ دراصل ایسا نہ تھا ۔ حکومت پاکستان یا اُن کے نمائندے زیادہ تر قصور وار تھے ۔ بہرحال اب کے جو بات کی جائے وہ صاف بھی ہو اور شفاف بھی۔ ایسا کرنے سے ہی حقیقی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ ورنہ فربتیں کم اور دوریاں ، غلط فہمیاں، شکوک و شبہات زیادہ پیدا ہو سکتے ہیں۔ ردعمل بھی زیادہ نقصان دہ ہونے کا خدشہ ہو جائیگا۔
حکومت پاکستان، میڈیا، دانشوروں اور دینی جماعتوں کو خصوصاً ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ تحریک طالبان پاکستان ایسی منظم اور باوسائل تنظیم نہیں ہے جس طرح حکومت پاکستان یا افواج پاکستان ہیں۔ وہ بیسیوں مقامی تنظیموں کا کھلا مجموعہ ہیں۔ علاوہ ازیںطالبان کے روپ میں سینکڑوں جاسوس اور ملک دشمن عناصر بھی موجود ہیں۔ یہ لوگ ان مذاکرات کے دوران معاہدوں کے بعد بھی اِکّا دُکا خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔ بیرونی دشمن ممالک بھی ایسے اقدامات کے موجب ہو سکتے ہیں۔ اس لئے اس قومی مسئلے کے حل کیلئے نہایت احتیاط ، صبر ، برداشت اور سمجھ بوجھ سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ ایک عورت کو کوڑے مارنے والا ڈرامہ ملٹری آپریشن کا جواز بن جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بار بار صبر اور برداشت کی تلقین کی ہے۔
مذاکرات کے حصول کے بارے ایک تنبیہ گوش گزار کرنے کی اجازت لینا چاہونگا۔ معاملہ گھمبیر ہے اس لئے فیصلے بھی اہم ہونے چاہیں۔ ایک خوش آئندہ بات ہے کہ طالبان نے پاکستان کے محب وطن اور Main Streamکے لوگوں کو ہی اپنے نمائندے بنا کر پیش کیا ہے ۔ اس سے بات واضح ہے کہ مذاکرات کے دوران اُن کی طرف سے مناسب نقطہ ِ نظر پیش کرنے کے امکانات ہیں جو مشاورت کے ذریعے آسانی سے حل ہو سکتے ہیں۔ دونوں اطراف کی طاقت کے توازن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسلئے حکومت پاکستان کو فراخدلی سے اور پدرانہ شفقت سے کام لینا چاہئے نہ کہ جابرا نہ طرز عمل جسکی بہت سارے ـ’’بہادر اور جنگجو‘‘ ترغیب دیتے رہتے ہیں۔
اب آیئے مذاکرات کی ابتدا پر غور کرتے ہیں۔ مختلف TVاور کالم نویسوں کی نوکری کا تقاضاء ہے کہ وہ ہر خبر پر جرح کریں اور ہر بے خبرکو خبر بنائیں۔ انتظامیہ کا کام ہوتا ہے کہ اپنے کام کاجوں کے طریقہ کار کو ننگا نہ کریں۔ صرف معاملات کی تکمیل پر بیانات اور وضاحتیں پیش کریں۔ ہمارے ملک میں مذاکرات کے بارے نا مناسب تبصرے اور تنقیدیں کی جارہی ہیں جن سے فضاء آلودہ ہو رہی ہے اور ابتداء سے پہلے ہی فرضی اتفاق یا اختلافات پر رائے زنی کی جا رہی ہے۔ حکومت پاکستان کے نمائندوں کوضبط ، بردباری ، صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور ذاتی تشہیر سے کنارہ کشی کرنی چاہئے ۔ اس وقت دونوں نامزد ٹیموں کا کام یہ ہے کہ معاہدہ سے پہلے ایک دوسرے کے خیالات اور نقطہ ء نظر کوایک صفحہ پر لے آئیں۔ اگر اس مرحلے میں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان حتمی معاہدہ کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔ ہم اُمید بھی کرتے ہیں اور دعاء بھی کہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں ۔
مولانا عبدالعزیز نے اپنی رائے کا سختی سے اظہار کیا جو جلد بازی اور ذاتی رائے زنی ہے ۔ اُنہیں مذاکرات میں مکمل حصہ لے کر آخر میں disenting noteکا پورا حق ہے۔ اس ابتدائی مرحلہ میں دھمکی دینا ہر طرح نا مناسب ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور عمران خان نے مذاکرات میں حصہ نہ لے کر اس گھمبیر مسئلے کو حل کرنے سے گریز کیا ہے۔
یہ رویہ تعمیری نہیں ہے۔ بلکہ سیاسی ہے جو قابل مذمت ہے۔ طالبان کے ممکنہ مطالبات کیونکہ اسلامی مملکت کی سلامتی اور وحدت کے خلاف نہیں ہیں اور حکومت پاکستان کی طرف سے بھی خلوص کی خوشبو آرہی ہے ۔ اس لئے قابل قبول معاہدہ کے امکانات روشن نظر آتے ہیں۔ سیاہ نقشہ کشی کرنے والوں اور منفی سوچ رکھنے والوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے امن و استحکام کی طرف پیش رفت کا قوی امکان ہے۔
بقول اقبال ؒ ’’پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ‘‘
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
Mar 07, 2014