خزائیں ہمارا مقدر کیوں؟

 اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں موجود بد امنی، لا قانونیت اور دہشت گردی کی بنیادی وجوہات تو غربت و افلاس اور جہالت ہی ہیں لیکن کیا صرف یہ کہہ کر ہم ماضی کی تمام تر حکومتوں کو اس صورت حال  سے بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں؟ نہیں بالکل نہیں۔ میرے خیال میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک کمزور حکمرانی کی جو کوتاہیاں ہم سے سرزد ہوئیں اُن کی ایک دیانتدارانہ اور غیر جانبدارانہ تشخیص ہمیں فوراً اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ اللہ کے نام پر حاصل کی گئی اس پاک سرزمین پر حکومتیں قائم کرنے کے فوراً بعد ہم نے فرض شناسی دیانتداری، صاف گوئی، خدا خوفی اور اصول پرستی کو خیر باد کہتے ہوئے کنبہ پروری، دولت اور جائیداد کی ہوس، بد دیانتی اور بے اصولی جیسی ریاست کُش اور ملک دشمن مہلک بیماریوں کو  بڑے  شوق سے گلے لگا لیا۔ لگژری کاریں، کشادہ کوٹھیاں مالِ حرام سے تیزی سے پھولتے ہوئے اندرون اور بیرون ملک بنکوں میں پڑے خزانوں اور اقتدار کے حصول کیلئے انسانی ذاتی وقار اور ملکی مفادات کے بے شرمی کے ساتھ بے دریغ سودے ہمارا شیوا بن گئے۔زمینی اصلاحات کو پسِ پشت ڈالکر وڈیرہ کلچر کو مزید تقویت دی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امیروں نے دولت کے انبار لگا لئے اور جاگیردار ملکی سیاست پر چھا گئے لیکن غریب افلاس کی چکی میں مزید پس گیا اور مڈل کلاس کے بہت سارے سفید پوش لوگ بھی غربت کی سطح سے نیچے گر گئے۔ سیاستدانوںکی نا اہلیوں بیورو کریٹس کی بد عنوانیوں اور مٹھی بھر عسکری قائدین کی ہوس اقتدار نے حالات کو بہتری کی طرف لانے کی بجائے ان کو ناقابل یقین حد تک ابتر کرڈالا۔ملکی قیادت نے مدبرانہ بصیرت سے بے نیاز بغیر کسی اعلیٰ منصوبہ بندی کے ریاست کو بے مقصد جنگوں میں جھونکا جس سے ملک معاشی لحاظ سے کمزور اور پھر دولخت ہوگیا اور دنیا کی مانی ہوئی افواج پاکستان جیسی عظیم عسکری قوت کو بار بار غلط استعمال کرکے بد نام کرنے کی کوشش کی گئی۔انگریزوں کے دور سے متحدہ ہندوستان میں قائم شدہ مدرسہ کلچر کو منظم اور مزید بہتر کرنے کی بجائے اس کو بیرونی قوتوں کی مالی معاونت کے تابع حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ان مذہبی تعلیم کے اداروں نے جہاں غریب گھرانوں کے بچوں کو تعلیم دینے میں بہت اعلیٰ کردارادا کیا وہاں کچھ اداروں میں موجود چند کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر کچھ مدرسوں میں عسکریت پسندی کے رجحان کو بھی ہوا ملی۔ بیرونی مالی امداد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت ساری مزید مذہبی جماعتیں اور عسکری لشکر وجود میں آگئے اور حکومت نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ کچھ حکومتوں نے تو ان لشکروں کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ پھر بیشتر دینی مدرسوں میں معیشت، تاریخ، کمپیوٹر جغرافیہ، سائنس اور دوسرے مضامین کی تعلیم کی عدم موجودگی اور سرکاری اور نجی سکولوں کے سلیبس میں سے دینی تعلیم کو غیب کرکے  صورتحال کو مزید خراب کیا گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی تعلیمات کے برعکس ریاست اور اس کے امیر کی اجازت سے ماورا ایسی سرگرمیاں شروع ہوگئیں جس نے ملک کو دنیا کی برادری میں تنہا کردیا۔اب صورتحال یہ ہے کہ کچھ انتہا پسند اپنے لشکر یا اپنی جماعت کے امیر کی بات بھی نہیں سنتے۔اس نظام کو ٹھیک کرنے کیلئے ہم نے سیاسی بصیرت سے بالکل کام نہیں لیا۔اس کے علاوہ قبائلی پٹی میں بسنے والے تقریباً40 لاکھ قبائلیوں کے پاکستان کا حصہ بننے کے اعلان کے باوجود 1947 سے لیکر آج تک ہم نے اُنکو بقول سابق سفیر ایاز وزیر Administer کیا لیکن اُن کو خود حکمرانی یا Self Governance کا حق نہیں دیا۔ وہ پارلیمنٹ کا حصہ تو بن گئے لیکن پارلیمنٹ میں بنائے جانے والے قوانین اُن پر لاگو نہیں‘ نہ ہی وہ اس عدل کے نظام کے تابع ہیں جو پارلیمنٹ کی منظوری سے پاکستان میں چل رہا ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پچھلے 67 سال میں ہم قبائلی پٹی میں رہنے والے پاکستانیوں کو ایک موثر انتظامی ڈھانچہ دیکر اُن کو قومی دھارے میں نہیں ڈھال سکے۔ FATA کا علاقہ کسی صوبائی وزیراعلیٰ کے نیچے نہیں آتا نہ ہی قبائلیوں کا کوئی اپنا وزیراعلیٰ ہے۔ صدر اور گورنر خیبر پختون خواہ اللہ کے بعد فاٹا کے نگہبان ہیں لیکن پارلیمانی جمہوریت میں کون نہیں جانتا کہ یہ عہدے برائے نام اور بے اختیار ہوتے ہیں۔ آج سے تقریباً15 سال قبل جب میں  واہ اسلحہ فیکٹریوں کے بورڈ کا چیئر مین تھا تو اس وقت میرا فاٹا سے کوئی براہِ راست تعلق تو نہ تھا لیکن میں بحیثیت پاکستانی سوچتا تھا کہ ہمارا یہ علاقہ زبردست محرومیوں کا شکار ہے۔ اس لئے درہ آدم خیل کے مَلکوں کی دعوت پر میں نے وہاں کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا اس وقت کے گورنر خیبر پختون خواہ جنرل افتخار حسین شاہ اور کچھ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مجھے خصوصاً وردی میں ایسا نہ کرنے کی نصیحت کی لیکن میں چونکہ وعدہ کرچکا تھا اس لئے چند صحافیوں کے ساتھ وہاں وردی میں ہی پہنچ گیا۔میرا وہاں استقبال فقید المثال تھا۔ میری فوجی ٹوپی اتروا کر انہوں نے مجھے اعزازاً کُلا پہنا دیا اور جعلی اسلحہ بنانے کے اپنے سارے خفیہ زیر زمین کارخانے بھی دکھائے۔ لنچ کیلئے بکرا ذبحہ کیا اور وہاں درہ کی مرکزی مسجد میں ہم نے اکٹھی نماز ظہر ادا کی۔ میں نے اُن سے عرض کیا کہ واہ چھاونی میں بننے والے شاہین کارتوسوں سے لیکر مشین گنوں تک آپ یہاں جو چیزیں بنا رہے ہیں وہ معیاری نہیں مثلاً بندوق یا مشین گن کی بیرل کیلئے تو ہم درآمد شدہ بہترین لوہا استعمال کرتے ہیں آپ کہاں سے یہ لوہا حاصل کرتے ہیں۔ اُن میں سے ایک کرافٹ مین نے فوراً جواب دیا کہ ہم ریل کی پٹڑی اکھاڑتے ہیں جو انگریز نے بنائی۔ چونکہ وہ لوگ میرا ناقابل یقین حد تک احترام کر رہے تھے میں نے پورے اخلاص سے اُن کو بتایا کہ یہ جعلی اور دونمبر کام تو پاکستان کے مفاد میں نہیں اس پر انہوں نے کہا جنرل صاحب ادھر صنعت ہے نہ زراعت۔ تعلیم اور صحت کی سہولتیں ناپید ہیں۔صاف پینے کا پانی تک میسر نہیں کوئی صدر یا وزیراعظم یہاں کا دورہ نہیں کرتا، ہم اگر اس اسلحے کی تیاری یا اس کی پاکستان اور افغانستان میں سمگلنگ نہیں کرینگے تو زندہ کیسے رہینگے؟ اس پر میری آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے چونکہ بد قسمتی سے یہ ایک کھرا سچ تھا۔ بہرحال میں نے عرض کیا کہ میرے ساتھ واہ فیکٹری میں تقریباً 30ہزار پاکستانی کام کرتے ہیں۔ میں یہ کرسکتا ہوں کہ آپ کے جواں سال بچے جو اچھے کرافٹس مین یا ہنر مند ہیں کو پاکستان کی ویپن فیکٹری میں قوانین کو کچھ Relax کرکے بھی ملازمت دے دوں۔ وہ بہت ممنون ہوئے اور میں نے فاٹا کے پچاس بچوں کو پی او ایف ویپن فیکٹری میں بھرتی کردیا۔ قبائلی سرداروں نے مجھے بتایا کہ پاکستان بننے سے لیکر اس وقت تک پاکستان کی کسی سرکاری یا غیر سرکاری کارپوریشن کے کسی چیف ایگزیکٹو نے بھی اُن کیلئے اس ہمدردی کا اظہار نہیں کیا۔ میں نے عرض کی کہ میری ہمدردی بحیثیت انسان قبائلی بھائیوں سے تو ہے ہی لیکن اس سے بھی زیادہ میری ہمدردی پاکستان سے ہے جو میری پہچان ہے۔ ہمیں اس شجر سے پیوستہ رہناچاہئے چونکہ بہار ضرور آئے گی۔ میں نے پھر اُن کو احمد ندیم قاسمی کے ان اشعار کا مطلب سمجھایا اور بہترین میزبانی کا شکریہ ادا کرکے واپسی کی اجازت چاہی…؎
 خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء  زوال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

ای پیپر دی نیشن