توانائی کے بحران کا جن قابو کیاجائے

 پاکستان کے عوام اس وقت توانائی کے شدید ترین بحران کا شکار ہیں، اس بحران نے جہاں عام آدمی کا کاروباری زندگی متاثر کیا ہے، وہاں صنعت کا پہیہ بھی جام ہوکر رہ گیا ہے اور پاکستان تاجروں کو بیرونی آرڈر ز پورے کرنے کیلئے متبادل ذرائع سے توانائی حاصل کرنا پڑ رہی ہے جس سے مالی طورپر وہ منافع نہیں ہو رہا جس کی وہ توقع کر رہے ہیں اور جو حقیقی معنوں میں ہوناچاہئے تھا۔ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے جس انداز میں حکمرانی کی ہے،اس حوالے سے اگر یہ کہاجائے کہ وہ کمیشن مافیا کی حکومت تھی تو بے جا نہیں ہوگا۔عام آدمی کے استعمال کے موبائل فون سے لیکر رینٹل پاور پلانٹس تک ہر شعبہ میں بھاری کمیشن لی گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کا تو کچھ نہ بن سکا، البتہ پانچ برسوں میں زرداری صاحب پانچ صدیوں کا خزانہ سمیٹ کر لے گئے۔اب جب پیپلز پارٹی کی حکومت جا چکی ہے اور اس کا جان بھی بنتا تھا کیونکہ اپنے پانچ برسوں میں پیپلز پارٹی نے عوام کیلئے کچھ نہیں کیا تھا اور اس یکطرفہ مفاداتی( یعنی اپنے ہی مفاد میں سرگرم  رہنے والی) حکومت سے عوام نے الیکشن میں ووٹ نہ دے کر بدلہ لیا۔ عوام بے چارے اورکر بھی کیا سکتے ہیں۔ آجا کے ان کے پاس صرف الیکشن کا وقت بچتا ہے،جس میں ان کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے اور اس کے علاوہ پورا ٹائم ان کے منتخب نمائندے کہیں دکھائی بھی نہیں دیتے۔آج سے دس برس قبل کی قیمتوں اور آج کی قیمتوں کا جائزہ لیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بیروزگاری کی شرح میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔بے روزگاری بڑھنے سے جرائم کی شرح بڑھ چکی ہے، چوریاں ڈکیتیاں عام ہیں جبکہ توانائی بحران نے الگ عذاب ڈال رکھا ہے۔پاک ایران گیس منصوبہ ہماری معیشت کیلئے انتہائی ضروری ہے لیکن حکومت امریکی دبائو میں اس کی تکمیل میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔بھارت اب تک ہمارے دریائو ں پر غیر قانونی طورپر 51 سے زائد ڈیم بنا چکا ہے اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہم ایک قانونی کالا باغ ڈیم نہیں بناسکے جو ہماری معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔کالا باغ ڈیم پر اعتراض کرنیوالے کے موقف میں کوئی وزنی دلیل نہیں۔ بعض سرکاری حلقوں سے یہ آوازیں بھی سنی گئیں کہ بھارت نے پاکستان میں کروڑوں روپے کی ’’ سرمایہ کاری‘‘ کی ہے کہ کالا باغ ڈیم نہ بننے دیاجائے،اس مقصد کیلئے ہمارے ہی بھائی بندوں کو خریدا گیا اور انہوں نے یہاں تک اعلان کردئیے کہ کالا باغ ڈیم ہماری لاشوں پر بنے گا۔پرویز مشرف دور میں یہ توقع کی جارہی تھی کہ آمر حکومت ہے، فوجی آدمی ہے، ہر کسی کو مُکا دکھا کر ’’ میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ‘‘ کا دعویٰ کرتا ہے۔اپنی اس بہادری کے بل بوتے پر ڈیم بنانے کا اعلان کردے گا اور بھارت کی تمام سازشیں ملیا میٹ ہوجائیں گی لیکن تاریخ کی بوڑھی آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جو کسی سے ڈرتا ورتا نہیں تھا وہ تین بندوں کے احتجاجی جلوس کے سامنے ڈھیڑر ہوگیا اور اس نے کالا باغ ڈیم کی بساط ہی لپیٹ ڈالی۔ نواز لیگ نے اقتدار میں آنے سے قبل یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ تین سال میں توانائی بحران ختم کردیں گے۔ میاں شہباز شریف نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ بجلی کیلئے آئی پی پیزکو28 ارب روپے کی ادائیگیاں کردی ہیں لیکن لوڈشیڈنگ پھر بھی کنٹرول نہیں ہوئی۔اب ہائیکورٹ نے اس پر ایکشن لیتے ہوئے آئی پی پیز کو کی گئی ادائیگیوں کی آڈٹ رپورٹ طلب کرلی ہے جس کے بعد حکومت کے خلا ف اس پر سنگین قسم کی کارروائی متوقع ہے۔ نواز لیگ کی حکومت سے اب بھی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ضرور توانائی بحران حل کرے گی۔اس حوالے سے دو آپشن ہیں،ایک پاک ایران گیس منصوبہ، دوسرا کالا باغ ڈیم، میاں نواز شریف کو چاروں صوبوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔  اگر چاروں صوبوں کے عمائدین کا ایک اجلاس بلا لیں یا دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے بلائی جانے والی اے پی سی کی طرز پر توانائی بحران کے حل کیلئے بھی ایک اے پی سی بلالی جائے جس میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے سب کو اعتماد میں لیاجائے اور جو اس ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کر رہے ہیں ان کو بھی اے پی سی میں مدعو کیاجائے اور ان کا موقف بھی کھلے دل سے سناجائے اگر اس میں وزن ہے تو اسے تسلیم کرلیاجائے اور اگر وہ بے بنیاد شور شرابہ ڈال رہے ہیں ( جو کہ راقم کے خیال میں بے بنیاد شور شرابہ ہی ہے) تو انہیں واضح تصویر دکھا دی جائے۔ ہمارے جن اداروں نے یہ خبر بریک کی ہے کہ بھارت نے یہاں کالا باغ ڈیم کی تعمیر رکوانے کیلئے ہمارے بندوں کو خرید رکھا ہے، وہ ثبوت سامنے لائیں اور ان فروخت ہونے والے غداران وطن کا یہیں ’’ علاج‘‘ کیاجائے، وطن کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا، اس کے آئین کو پامال کرنے کے جرم کی طرح سنگین ترین جرم ہے اور آئین میں غداری کی جو سزا ہے اس پر عمل کرتے ہوئے انہیں عبرت کا نشان بنایاجائے میاں نواز شریف کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان کریں اور قوم کو اندھیروں سے نجات دلائیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...