مسائل کے حل کیلئے مذاکراتی عمل میں فوج کو شامل کرنا پڑے گا: پرویز رشید

اسلام آباد (جاوید صدیق) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ حکومت اور طالبان کی طرف سے قائم کی گئی کمیٹیوں کو مذاکراتی کمیٹیاں کہنا درست نہیں تھا۔ یہ مذاکراتی کمیٹیاں نہیں تھیں یہ تو رابطہ کمیٹیاں تھیں جو حکومت اور طالبان کے درمیان رابطے قائم کرا رہی تھیں۔ نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’مذاکراتی کمیٹیوں‘‘ کی اصطلاح میڈیا نے استعمال کرنا شروع کی۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا فوج کو بھی مذاکراتی عمل میں شریک کیا جائے گا تو انہوں نے کہا کہ فوج کو شامل کرنا ہو گا۔ مذاکرات کے دوران بعض ایسے امور زیر بحث آ سکے جس کے بارے میں صرف فوج ہی بہتر جانتی ہے۔ مثال کے طور پر طالبان کی طرف سے پھر کہا گیا ہے کہ اُن کے ساتھیوں کی خواتین اور بچے حکومت کی حراست میں ہیں۔ اس کا جواب تو فوجی ادارہ کا کوئی نمائندہ ہی دے سکتا ہے۔ اس نوعیت کے کئی مسائل مذاکرات کے دوران ابھر کر سامنے آ سکتے ہیں جن سے نمٹنے کے لئے فوج کو مذاکراتی عمل میں شریک کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ فوج کسی دوسرے ملک کی نہیں ہماری اپنی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...