لاہور (خصوصی رپورٹر/ خصوصی نامہ نگار) پنجاب اسمبلی نے اپوزیشن کی غیر موجودگی میں کم عمری کی شادی کی ممانعت، فیملی کورٹس‘ مسلم فیملی لاز اور خواتین کے حقوق سے متعلق 5 بلوں سمیت 11 ترمیمی بل منظور کر لئے۔ اپوزیشن ارکان نے ایوان سے واک آﺅٹ کیا، پنجاب اسمبلی نے ایک ہی روز میں قانون سازی کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ بچوں کی کم عمر شادی کرنے والے والدین یا سرپرست کے خلاف جرمانہ ایک ہزار سے 50 ہزار اور سزا 2 سال تک کر دی گئی‘ نکاح نامے میں درج تمام نکات کو مکمل کرنا ضرور ی ہو گا‘ خانہ خالی چھوڑنے والے نکاح خواں کو بھی ایک ماہ کی سزا اور 25 ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ ساﺅنڈ سسٹم پنجاب کے ترمیمی بل کے تحت صوبے میں لاﺅڈ سپیکر کے غیر قانونی استعمال اور وال چاکنگ کرنے والوں کے خلاف بھی سخت سے سخت کارروائی کےلئے سزائیں بھی بڑھا دی گئیں۔ 11 ترمیمی بلوں کی منظوری کے موقع پر اپوزیشن واک آﺅٹ کر گئی اور قائم مقام سپیکر نے اپوزیشن کی عدم موجودگی پر اظہار افسوس کیا۔ پنجاب اسمبلی نے خواتین کے حقوق کے متعلق جن بلوں کی منظوری دی ان میں فیملی کورٹس ترمیمی بل 2015ءمنظور کیا گیا جس کے تحت اب نکاح خواں شادی کے موقع پر نکاح نامے کے تمام خانوں کو پُر کرنے کا پابند ہو گا اور ایسا نہ کرنے والے نکاح خواں کو ایک ماہ کی قید اور 25 ہزار روپے جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔ مالیہ اراضی پنجاب 2015ءکے ترمیمی اور تقسیم غیر منقولہ جائیداد پنجاب 2015ءکے ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی جائیداد کے جھگڑے میں معاملے کو تمام فریقین کی موجودگی میں ہی حل کیا جائے گا کسی فریق کے رہ جانے پر مسئلہ جوں کا توں ہی رہے گاہ کم سنی شادی ممانعت 2015ءکے بل میں بتایا گیا ہے کہ کم عمری کی شادی کروانے والے والدین یا ان کے سرپرست کو پہلے ایک ماہ اور ایک ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا تاہم اس بل کی منظوری کے بعد اس سزا میں اضافہ کیا گیا ہے جس کے مطابق اب کم عمری میں شادی کروانے والے والدین یا سرپرست کو 6 ماہ کی قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ مسلم فیملی لاز 2015ءکے ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ دوسری شادی کےلئے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہو گا اور دوسری شادی کے بعد بیوی اور بچوں کے اخراجات کی ذمہ داری بھی شوہر پر عائد ہو گی جبکہ پنجاب اسمبلی نے مسودہ قانون سکیورٹی غیر محفوظ ادارہ جات پنجاب 2015ئ، پنجاب آرمز 2015 ترمیمی بل، قیام امن عامہ پنجاب 2015ءترمیمی بل، تشکیل و فرائض و اختیارات کریمنل پراسیکیوشن سروس پنجاب 2015 ترمیمی بل، مسودہ قانون ریگولیشن ساﺅنڈ سسٹمز پنجاب 2015ءاور دیواروں پر اظہار رائے کی ممانعت پنجاب 2015ءکے ترمیمی بل کو اپوزیشن کی غیر موجودگی میں اکثریتی رائے سے منظور کر لیا۔ قبل ازیں اجلاس میں سرکاری کارروائی کے آغاز کے بعد عامر سلطان چیمہ نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کونسی قیامت آ گئی ہے کہ حکومت کو اسمبلی کے قواعد و ضوابط معطل کرنا پڑے اور بلوں کو متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھجوائے بغیر انکی اسی روز منظوری لی جا رہی ہے۔ اس طرح کی روایت سے اچھا تاثر نہیں دیا جا رہا۔ ہمیں تو قواعد و ضوابط کا سبق دیا جاتا ہے لیکن خود اس کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ جس پر صوبائی وزیر قانون میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا کہ 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن آ رہا ہے او رحکومت خواتین کے حقوق کے لئے ان بلز کو منظور کرانا چاہتی ہے اگر ان میں کوئی کمی یاکوتاہی رہ بھی جائے گی تو اپوزیشن اس پر ترامیم لے آئے ہم انہیں دور کر لیں گے۔ خدیجہ عمر نے کہا کہ یہ بلز قائمہ کمیٹیوں کو نہیں بھجوائے گئے جسکی وجہ سے اس میں خامیاں رہ جائیں گی حکومت آج خواتین کی بات کر رہی ہے وہ دو ماہ قبل بھی اس پر کام کر سکتی تھی، حکومت اس اسمبلی کو لیبارٹری نہ بنائے جسکے بعد سپیکر نے بلوں کی منظوری کے لئے کارروائی کا آغاز کیا تو خدیجہ عمر نے کورم کی نشاندہی کردی اور تعداد پوری نہ ہونے پر پانچ منٹ کے لئے گھنٹیاں بجائی گئیں اور پانچ منٹ بعد تعداد پوری ہونے پر قائم مقام سپیکر نے دوبارہ اجلاس کی کارروائی شروع کر دی۔ ایوان میں موجود اپوزیشن کے تین ارکان عامر سلطان چیمہ‘ خدیجہ عمر اور فائزہ ملک نے اپنی نشستوں پرکھڑے ہو کر اس پر احتجاج شروع کر دیا لیکن قائم مقام سپیکر نے اسکے باوجود کارروائی جاری رکھی جس پر اپوزیشن کے تین ارکان نے احتجاجاً ایوان سے واک آﺅٹ کردیا۔ عامر سلطان چیمہ نے کہا کہ اگر اسمبلی کو اسی طرح چلانا ہے تو پھر آپ کا اور اس اسمبلی کا اللہ ہی حافظ ہے۔ قبل ازیں ایوان میں صوبائی وزیر چوہدری عبد الوحید ارائیں نے محکمہ جیل خانہ جات اور صوبائی وزیر ذکیہ شاہنواز نے محکمہ بہبود آباد سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے۔ گزشتہ روز قائم مقام سپیکر پنجاب اسمبلی سردار شیر علی گورچانی کی صدارت میں پنجاب اسمبلی کا اجلاس 9بجے کے بجائے ایک گھنٹہ 5منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ عائشہ جاوید کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے ایوان کو بتایا کہ پنجاب کی تمام جیلوں میں آنے والے قیدیوں کے ٹیسٹ لئے جاتے ہیں 2014-15ءمیں 31341قیدیوں کے ٹیسٹ لئے گئے جن میں سے 87 میں ایڈز کی تصدیق ہوئی۔ ان قیدیوں کا نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت علاج کیا جاتا ہے اور ان قیدیوں کو دوسرے قیدیوں سے علیحدہ رکھا گیا ہے۔ حکومتی رکن میاں محمد رفیق نے استفسار کیا کہ محکمہ بہبود آباد کی طرف سے اقدامات کے باوجود آبادی کو کنٹرول نہیں کیا جا سکا، ہر دس سال بعد مردم شماری لازم ہے لیکن حکومت کیوں اس سے گریزاں ہے۔ صوبائی وزیر ذکیہ شاہنواز نے کہا کہ اس کےلئے نیا محکمہ بنایا گیا ہے پہلے اس محکمے کے پاس صرف تنخواہوں کے لئے پیسے ہوتے تھے لیکن اب اس محکمے کو 3.6ارب روپے ملے ہیں جس سے معاملات کو درست کر رہے ہیں۔ عائشہ جاوید کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے ایوان کو بتایا کہ پنجاب کی تمام جیلوں میں 226خواتین قیدی ہیں جن میں سے 44کو موت کی سزا ہو چکی ہے، پورے پنجاب میں 668حوالاتی خواتین ہیں۔ صوبائی وزیر جیل نے ایوان کو بتایا کہ پورے پنجاب میں کوئی بھی ایسا مرد و خاتون قیدی نہیں جو اپنی سزا مکمل ہو جانے کے باوجود جرمانے یا دیت کی ادائیگی کی وجہ سے قید ہو۔ انہوں نے کہا کہ منشیات لانے کے لئے جو طریقے استعمال کئے جاتے ہیں میں ایوان میں اس کا ذکر نہیں کر سکتا۔ ماضی میں جرائم پیشہ افراد موبائل فون کے ذریعے جیلوں میں بیٹھ کر اغوائے برائے تاوان سمیت دیگر جرائم کراتے تھے لیکن ہم نے جیلوں میں موبائل کی ممانعت کے فیصلے پر سختی سے عملدرآمد کرایا ہے۔ اجلاس کے دوران نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے حکومتی رکن شیخ اعجاز نے بات کرتے ہوئے کہا کہ 5مارچ کے دن ایک تاریخ رقم ہوئی ہے، پنجاب کے ایوان نے اپنے قائدین سے دیرینہ وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینیٹ انتخابات میں کلین سویپ کرایا اس پر میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔شیخ علاﺅ الدین نے نقطہ اعتراض پر قائم مقام سپیکر کے سامنے سوال اٹھایا کہ میری تحاریک کو مختلف اعتراض لگا کر ایوان میں آنے سے روکا جاتا ہے۔ جس پر قائم مقام سپیکر سردار شیر علی گورچانی نے کہا کہ میںنے سیکرٹری اسمبلی سے کہا ہے کہ وہ آپ کی جتنی بھی تحاریک ہیں انہیں میرے پاس لائیں او رمیری آپ سے کمٹمنٹ ہے کہ انہیں ایجنڈے پر لایا جائے گا۔ اجلاس کے دوران قائمقام سپیکر نے وزیر قانون میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن سے اسمبلی ملازمین کی تنخواہوں کے حوالے سے فنانس کمیٹی کے فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ اس پر محکمے سے تفصیلی جواب مانگا ہے اور میں ایوان کو آگاہ کر دیتا ہے۔اجلاس کے اختتام پرقائم مقام سپیکر نے دوبارہ جواب مانگا تو اس پر وزیر قانون نے کہا کہ سوموار کے روز اس کا تفصیلی جواب دیدیا جائے گا جس پر قائم مقام سپیکر نے کہا کہ اس پر عملدرآمد کر کے ایوان کو بتائیںجس پر تمام ارکا ن نے ڈیسک بجائے۔ ایجنڈے کی کارروائی مکمل ہونے پر اجلاس پیر کی دوپہر دو بجے تک کیلئے ملتوی کر دیاگیا۔