چیئرمین سینٹ کیلئے جوڑ توڑ شروع‘ متحدہ کا کردار اہم‘ مشترکہ امیدوار لائیں گے : پیپلز پارٹی

لاہور، اسلام آباد، کراچی (مبشر حسن+ محمد نواز رضا+ جاوید صدیق+ شہزاد چغتائی) سینٹ الیکشن کے بعد چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین کیلئے جوڑتوڑ شروع ہو گیا۔ تحریک انصاف کی طرف سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو ووٹ نہ دینے کے اعلان کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کا کردار انتہائی اہم ہو گیا اور متحدہ مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی جس کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالے گی وہ جماعت چیئرمین کا عہدہ حاصل کر سکتی ہے۔ تاہم ان حالات میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں مفاہمت بھی ہو سکتی ہے اور کوئی متفقہ امیدوار آ سکتا ہے۔ پیپلزپارٹی 27 نشستوں کے ساتھ اب بھی ایوان بالا میں سب سے بڑی جماعت ہے اور بڑے عہدوں کیلئے متحرک بھی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی نشستیں 26 ہیں پیپلزپارٹی کو اے این پی کی 7 ، ق لیگ 4، پی این پی عوامی کی 2 اور بلوچستان سے آزاد جیتنے والے یوسف بادینی کی حمایت حاصل ہے اس طرح ان کی سیٹیں ملا کر 41 بنتی ہیں اور بی این پی مینگل کی سیٹ اگر ان کو ملی تو یہ تعداد 42 ہوجاتی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی اپنی 26 نشستوں کے ساتھ اسے نیشنل پارٹی 3، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے 3 سینیٹر کی حمایت حاصل ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت کے 5 سینیٹر بھی حکومتی اتحادی ہیں۔ فنکشنل لیگ کا ایک سینیٹر بھی حکومت کے ساتھ ہو گا اور 5 آزاد ارکان کے ساتھ ان کی تعداد 42 بنے گی۔ جبکہ فاٹا سے ابھی انتخاب ہونا باقی ہے تاہم حقائق بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کو فاٹا سے حمایت حاصل ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمن بھی 21ویں ترمیم کی وجہ سے حکومت سے ناراض ہے تاہم متحدہ اگر پیپلز پارٹی کے ساتھ جائے تو ان کی تعداد 49 ہوسکتی ہے جبکہ حکومت کا ساتھ دینے کی صورت میں یہ تعداد 56 ہوسکتی ہے۔ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ نے اس حوالے سے کہا کہ ان کی جماعت نے اس حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی دونوں بڑی جماعتوں نے ان سے رابطہ کیا ہے حکومت کی طرف سے چھوٹی جماعتوں کو حمایت کے لئے مختلف آفرز ہوسکتی ہیں جس سے مسلم لیگ ن کی پوزیشن بہتر ہونے کا امکان ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ مقابلہ بہت سخت ہے۔ جاوید صدیق کے مطابق پی پی پی کے قریبی ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی ایم کیو ایم، اے این پی کے تعاون سے چیئرمین سینٹ کا انتخاب جیتنے کی تیاری کررہی ہے جبکہ ڈپٹی چیئرمین متحدہ قومی موومنٹ کو دینے پر بات چیت چل رہی ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے بارے میں فیصلہ وزیراعظم کی واپسی کے بعد ہوگا۔ مسلم لیگ ن نے اب تک چیئرمین کے انتخاب کے لئے حکمت عملی وضع نہیں کی ہے اگر مقابلہ ہوا تو پیپلز پارٹی کا پلہ بھاری رہے گا۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار رحمن ملک ہیں۔ محمد نواز رضا کے مطابق چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں چھوٹے پارلیمانی گروپوں کا رول بڑھ گیا۔ ایم کیو ایم‘ جمعیت علماءاسلام (ف)، اے این پی‘ مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کی قیادت سے بارگیننگ کرسکتی ہے اگرچہ تحریک انصاف نے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا ساتھ نہ دینے کا اعلان کیا ہے لیکن وہ آخری وقت میں جوڈیشل کمشن کے قیام پر مسلم لیگ (ن) سے سودے بازی کرسکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی اعلی قیادت چیئرمین سینٹ کے لئے آج ممکنہ امیدواروں کے بارے میں غور کرے گی تاہم اس وقت راجہ محمد ظفر الحق کا نام فیورٹ ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی فاروق ایچ نائیک‘ میاں رضا ربانی اور چودھری اعتزاز احسن کے ناموں پر غور کررہی ہے۔ وزیراعظم محمد نوازشریف سینٹ میں نمائندگی رکھنے والی جماعتوں کے قائدین سے خود ملاقاتیں کریں گے تاہم اس کے ساتھ سیاسی جماعتوں سے رابطے کے لئے کمیٹی بنائی جارہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب‘ بلوچستان اور اسلام آباد میں پوزیشن مستحکم ہے تاہم پیپلز پارٹی بھی چھوٹی پارلیمانی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے گی۔ حکومت آزاد امیدواروں اور فاٹا سینیٹرز کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرے گی۔ ایم کیو ایم کو وفاقی حکومت میں شمولیت کی دعوت دے کر اس کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔ آئندہ ہفتے اسلام آباد میں چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے لئے زبردست جوڑ توڑ ہوگا۔آصف علی زرداری اسلام آباد میں مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کریں گے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ سینٹ میں واحد اکثریتی جماعت کا درجہ حاصل نہیں کر پائی ہے اسکے باوجود مسلم لیگ (ن) کے رہنما خاصے پر امید دکھائی دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما، نومنتخب سینیٹر اور وفاقی کابینہ کے رکن مشاہد اللہ خان کہتے ہیں کہ معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ وغیرہ کے جس اتحاد کا آپ ذکر کر رہے ہیں وہ سینٹ کے انتخابات کی حد تک تھا۔ وہ مرحلہ مکمل ہو چکا ہے، جس نے جیتنا تھا وہ جیت گیا۔ اب ایک دو روز بعد سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کیلئے جوڑتوڑ اور اتحادوں کا نیا مرحلہ شروع ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما کہتے ہیں کہ اس نئے مرحلے پر نئے اتحاد بنیں گے۔ نئے جوڑتوڑ ہوں گے اور نئے سرے سے مذاکرات ہوں گے۔ پاکستان کی سینٹ کے سابق رکن اور سینئر سیاست اور قانون دان ایس ایم ظفر کے مطابق ’اس طرح‘ کے جوڑتوڑ میں حکومت عموماً فائدے میں رہتی ہے۔ مسلم لیگ کی فہرست میں راجہ ظفر الحق کے علاوہ اقبال ظفر جھگڑا اور رفیق رجوانہ بھی شامل ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے سابق چیئرمین سینٹ فاروق ایچ نائیک اور سینیٹر رحمن ملک خاصے متحرک نظر آرہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی نائب صدر شیریںرحمن نے کہا ہے کہ انکی پارٹی چیئرمین سینٹ کیلئے مشترکہ امیدوار لائے گی۔






ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...