برطانوی پاکستانیوں کے مسائل پر ردّ عمل…

Mar 07, 2016

طاہر جمیل نورانی

23؍فروری کو ’’برطانوی پاکستانیوں کے مسائل کے بارے میں تشویش‘‘ کے عنوان سے لکھے کالم کو اس قدر پذیرائی حاصل ہو گی ہر گز اندازہ نہ تھا۔ برطانوی پاکستانیوں اور کشمیریوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے ’’ولایت نامہ‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے ’’دل خوش کر دیا ہے‘‘ کے الفاظ لکھ کر یہ پیغام دیا کہ اپنی آدھی زندگی برطانیہ میں گزارنے کے باوجود پاکستان میں انہیں درپیش مسائل کے موثر حال کیلئے حکومتی سطح پر قائم کسی کمشن، فائونڈیشن، یا اوورسیز ادارے نے آج تک ان کا کوئی مسئلہ حل نہیں کیا اس لیے وہ آج بھی اپنے آپ کو بے یارومددگار تصور کرنے پر مجبور ہیں۔ انوار ملک، ڈاکٹر ایم اے شاہ، یوسف نسیم اور ڈاکٹر بیگ کا کہنا تھا کہ یہ تسلیم اگر کر بھی لیا جائے کہ کسی برطانوی پاکستانی کا پاکستان میں بذریعہ مراسلت یا ای میل کوئی مسئلہ حل ہوا ہے تو اس بات کو ہر گز بھولنا نہیں چاہیے کہ ایسے مسائل کو متعلقہ اداروں تک پہنچانے سے قبل کسی حکومتی وزیر، مشیر یا پھر مسلم لیگ (ن) کے کسی رہنما تک رسائی حاصل کرنا پہلی شرط ہے…؟
متعلقہ محکموں میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی کے لیے ان مسلم لیگی کارکنوں اور رہنمائوں کو جنہیں پارٹی کی خدمات کے عوض بعض سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں ’’بلامعاوضہ خدمات‘‘ کا سرٹیفکیٹ دے کر اعلیٰ عہدوں پر فائز تو کیا گیا ہے مگر ہر اعلیٰ عہدے کے پروٹوکولز کو ڈکلیئر نہیں کیا گیا جبکہ رضاکارانہ خدمات میں ’’پروٹوکول‘‘ کا قطعی تصور موجود نہیں۔ ملک و قوم کے لیے اگر واقعی آپ نے رضاکارانہ خدمات سرانجام دینی ہیں تو پھر بڑا دفتر، بڑی میز، بڑے کھانے اور بڑی ٹرانسپورٹ کی مراعات کس لیے…؟ بس یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جسے ایک عام سمندر پار پاکستانی کو سمجھنے کی ضرورت ہے!
بعض کرم فرمائوں کا اصرار تھا کہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کا یہ سلسلہ جاری رکھوں تاکہ اگر زیادہ نہیں تو حکمرانوں کو کم از کم یہ تو معلوم ہو سکے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے قائم آدھ درجن محکموں اور اداروں پر اٹھنے والے بھاری اخراجات عوام آخر کب تک برداشت کرتی رہے گی…؟
تعریفی کلمات پہ مبنی اور کالم کی پسندیدگی پر ایک e.mail میں پاکستان ہائی کمشن کے پریس اتاشی جناب منیر احمد کی جانب سے موصول ہوئی منیر احمد نے جو آجکل Press Minister کی اضافی ذمہ داریاں بھی نبھا رہے ہیں ۔ تازہ ترین اطلاعات فراہم کرتے ہوئے لکھا کہ لندن ہائی کمشن میں کمیونٹی ویلفیئر اتاشی یا افسر کا اب کوئی عہدہ نہیں رہا…؟ مانچسٹر واحد قونصلیٹ ہے جہاں اس عہدہ پر ہمارا ایک افسر ذمہ داریاں نبھا رہا ہے۔ ویلفیئر اتاشی کے عہدہ کے حوالہ سے انہوں نے ایک وضاحت اور بھی کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی ہدایات کی روشنی میں بعض سفارتخانوں میں سٹاف کی کٹوتی کی جا چکی ہے اور جہاں ایسا ہوا وہاں ان عہدوں کو ختم کر دیا گیا تاکہ بھاری اخراجات کو روکا جا سکے۔ مگر اس سے یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ حکومتی اخراجات کی کمی سے اوورسیز پاکستانیوں کو وطن کے حوالہ سے درپیش مسائل کو سرے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ایسا ہر گز نہیں…!
برطانوی پاکستانیوں کے مسائل کے فوری حل کیلئے ہم ہر وقت حاضر ہیں۔ ہائی کمشنر سید ابن عباس تو یہ واضح اعلان کر چکے ہیں کہ ہر پاکستانی اور کشمیری کے لیے ہائی کمشن کے دروازے صبح و شام کھلے ہیں۔ اپنے مسائل اور اپنی پریشانیوں کو ہم سے شیئر کرنے کے لیے بلاجھجھک ہائی کمیشن تشریف لائیں اور متعلقہ سیکشن کو فوری آگاہ کریں۔ ہماری یہ بھرپور کوشش ہو گی کہ آپ کے مسلہ کا فوری حل نکالا جا سکے۔کچھ پیغامات امریکہ، کینیڈا سے بھی آئے ہیں مگر فرداً فرداً سب کا ذکر اس لیے بھی نہیں کر پائوں گا کہ اس سے کالم طویل ہونے کا خدشہ ہے جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں تاہم ’نوائے وقت‘ کا سالہا سال سے مطالعہ کرنے والے اپنے ان تمام نظریاتی کرم فرمائوں کے جذبات کا مجھے پورا پورا احساس تو ہے مگر انہیں یہ کس طرح باور کرائوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عوام کو 68 سال سے درپیش بنیادی مسائل کے حل نکالنے کیلئے محض ’’کالم‘‘ لکھنا کافی نہیں کیونکہ ہمارا قومی معاملہ ہی عجیب ہے ہمارے ہاں ’’کالموں‘‘ فیچروں سے مسائل حل نہیں ہوتے جن اداروں یا محکموں نے عوامی مسائل حل کرنے ہوتے ہیں افسوس کہ ان کے حکمرانوں سے خود اپنے مسائل پر جنگ ہو رہی ہوتی ہے۔ کالموں، فیچروں اور مضامین سے اگر عوامی مسائل حل ہونے ہوتے تو ’’باکمال لوگوں کی لاجواب سروس‘‘… ریل کے عمر رسیدہ انجن سمندر پار پاکستانیوں کی زمینوں، مکانوں، کوٹھیوں اور پلاٹوں پر کیے جانے والے غیر قانونی قبضوں سمیت بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ ملک میں بڑھتی بے روزگاری، بچوں سے آئے دن ہونے والی زیادتیاں، بھوک مٹانے کے عوض بچوں کی فروخت اور کورٹ، کچہریوں اور پولیس تھانوں میں شرفاء کی تضحیک… کب کی ختم ہو چکی ہوتی…
پوچھنے والے پوچھیں گے کہ ایسا آخر کیوں ہو رہا ہے… جو اب بالکل سیدھا ہے کہ ہمارے حکمران‘ لیڈر‘ رہنما اور اداروں کے سربراہان عوامی بھلائی کے لیے جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور یہی وہ افسوسناک اور شرمناک صورتحال ہے جس نے مجموعی طور پر پوری قوم کو محرومیوں کا شکار بنا رکھا ہے، اس لیے اپنا قومی رونا اگر کوئی روئے تو کس کے سامنے کاش! مسائل کی چکی میں پسنے والی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندوں کو احساس ہو سکے… اے کاش!

مزیدخبریں