مصطفی کمال جھوٹا ہے!

Mar 07, 2016

نازیہ مصطفٰی

یوں تو پاکستانی سیاست میں ہلچل مچتی ہی رہتی ہے لیکن پاکستانی سیاست میں حقیقی بھونچال اُس وقت آیا جب ایم کیو ایم کے دو سابق رہنما مصطفی کمال اور انیس قائم خانی بیرون ملک سے اچانک کراچی پہنچے اور الطاف حسین کے خلاف دھواں دھار پریس کانفرنس کر ڈالی۔ اس پریس کانفرنس میں مصطفی کمال نے اپنے سابق قائد الطاف حسین پر ایسے الزامات کی بوچھاڑ کی جو اہل پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے سُنتے چلے آ رہے تھے لیکن مصطفی کمال کی زبانی اِن الزامات کا دُہرایا جانا گویا ’’آنکھوں دیکھا حال‘‘ تھا۔ مصطفی کمال کی پریس کانفرنس کا ایک ایک لفظ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ جب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی ہوس کی بھینٹ چڑھ کر کراچی جل رہا تھا تو گویا ’’ہم بھی وہاں موجود تھے۔‘‘ مصطفی کمال کے الزامات کو ایم کیوایم کے مخالفین نے اپنے برسوں پرانے مؤقف کی تائید قرار دیا جبکہ ایم کیو ایم نے گمراہ کن پراپیگنڈا قرار دے کر مسترد کردیا، لیکن مصطفی کمال کی گفتگو کا باریک بینی سے جائزہ لینے والے کم لوگ ہی دکھائی دیے۔ کیا اپنے اور کیا پرائے سبھی نے مصطفی کمال سے الزامات کے ثبوت مانگنے شروع کر دیے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ثبوتوں کے بغیر مصطفی کمال کے الزامات کو حقائق، واقعات اور قرائن کی کسوٹی پر پرکھا نہیں جا سکتا؟ مثال کے طور پر مصطفی کمال نے جب الزام عائد کیا کہ ’’الطاف حسین نے پوری مہاجر کمیونٹی کو ’’دہشت گرد‘‘ بنا دیا ہے‘‘ تو بھلا اُس نے غلط بھی کیا کہا؟ کیا یہ غلط ہے کہ جس قوم نے عبیداللہ علیم، رئیس امروہوی، جون ایلیا، جوش ملیح آبادی، ماہر القادری، دلاور فگار اور افتخار عارف جیسے قادرالکلام شعرا کو جنم دیا، اُس میں گزشتہ تین دہائیوں میں لنگڑوں، کانوں اور کن کٹوں کے سوا کوئی پیدا نہیں ہوا۔ مصطفی کمال نے جب الزام لگایا کہ ’’الطاف حسین نے کبھی اپنی خطاؤں کو تسلیم نہیں کیا اور انیس قائم خانی اور ان کی ایم کیو ایم سے علیحدگی کی وجہ پارٹی میں ہونے والی تذلیل تھی‘‘ تو اِس میں بھلا غلط بھی کیا تھا؟ کون نہیں جانتا کہ پارٹی میں لوگوں کو کیسے کیسے ذلیل کیا جاتا تھا؟ کون نہیں جانتا کہ 19 مئی 2013ء کو کارکنوں سے پوری پارٹی قیادت، رابطہ کمیٹی اور تنظیمی کمیٹی کو جوتے مروانے کا واقعہ کوئی واحد واقعہ نہیں تھابلکہ ہر مہینے دو مہینے بعد اِس طرح کا واقعہ پیش آتا تھا، جس میں کارکنوں سے لے کر پارٹی رہنماؤں تک سے ایسے سلوک کیا جاتا تھا جیسے وہ کسی سیاسی جماعت کے کارکن نہیں بلکہ کسی مافیا کے کارندے ہوں۔ مصطفی کمال نے جب یہ الزام لگایا کہ ’’الطاف حسین کی وجہ سے ایم کیو ایم نے دشمنیاں مول لیں لیکن الطاف حسین کو کسی کارکن یا مہاجر کی فکر نہیں، جب سے ایم کیو ایم میں قدم رکھا ہے لوگ مر رہے ہیں‘‘ تو اس میں بھلا جھوٹ بھی کیا تھا؟ کون نہیں جانتا کہ گزشتہ تین دہائیوں سے کراچی شہر اور اہل کراچی پر کون کون سی مصیبت نہیں ٹوٹی؟ اِن تیس پینتیس برسوں میں کیا کراچی میں خون کی ندیاں نہیں بہائی گئیں؟ ان تین سو ساٹھ مہینوں میں روشنیوں کے شہر کراچی کو اندھیروں میں دھکیلنے کی کونسی کوشش بھلا نہیں کی گئی؟ مصطفی کمال نے اس میں کون سا جھوٹ بولاکہ ’’جن بچوں نے 1990 کی دہائی میں اپنے والد کو دفنایا، اب اُنہی کی اولاد اُنہیں دفنا رہی ہے۔‘‘ کیا یہ حقیقت نہیں گزشتہ تین دہائیوں سے اہل کراچی بے موت مرنے والے اپنے پیاروں کے جنازے ہی اٹھائے چلے جا رہے ہیں؟ مصطفی کمال نے الزام لگایا کہ ’’الطاف حسین نے کبھی اپنی خطاؤں کو تسلیم نہیں کیا ہے، الطاف حسین کے سوچ اور رویے میں تبدیلی لانے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی تھیں، پہلے کبھی کبھار پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کو گالی دیتے تھے اور چند دن بعد معافی مانگ لیتے تھے، لیکن اب شراب کے نشے میں دُھت ہوکر رات کو گالیاں بکتے ہیں اور صبح کو معافی مانگ لیتے ہیں‘‘مصطفی کمال نے اگر یہ الزام لگایا تو اس میں غلط بھی کیا ہے۔ جو الزام یا انکشاف مصطفی کمال اب کر رہے ہیں، اِس کالم نگار نے 3 مئی 2015ء کو ہی اپنے کالم ’’علاج تو ہو سکتا ہے‘‘ میں لکھ دیا تھا کہ ’’الطاف حسین با ر بار قومی اداروں اور شخصیات کو مطعون کرنے کا جرم کرچکے ہیں، الطاف حسین نے جتنی مرتبہ یہ جرم کیا، اتنی ہی بار معافی بھی مانگی۔ ماہرین کے نزدیک بار بار ایک ہی جرم کرناخطرناک بیماری ہے، اس بیماری کو تکرارِ جرم یعنی (Recidivism) کہا جاتا ہے۔ امریکہ میںایسے مجرم نما مریضوں کا علاج سزا دے کر کیا جاتا ہے، لیکن برطانیہ میں سزا کے بجائے ایسے مجرموں کو علیحدگی میں رکھ کر تعلیم و تربیت کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر برطانیہ میں اس ’’بیماری‘‘ کی بہترین علاج گاہیں جیلوں میں قائم ہیں اور تکرارِ جرم کے مریضوں کا علاج جیل میں رکھ کر ہی کیا جاتا ہے؟ تو پھر کیا خیال ہے؟ الطاف حسین تو پہلے ہی برطانیہ میں ہیں اور برطانیہ میں جیلیں بھی ہیں، علاج تو ہوسکتا ہے!‘‘ البتہ مصطفی کمال نے کالم نگار کے لکھے میں اتنا اضافہ ضرور کیا ہے کہ الطاف حسین کی ’’بیماری‘‘ لاعلاج ہوچکی ہے۔ لیکن اِس سب کے باوجود اچھی بات تو یہ ہے کہ پہلے جن باتوں کا اظہار ایم کیو ایم سے باہر بیٹھے لوگ کرتے تھے، اب وہی باتیں الطاف حسین کے اپنے چہیتوں کی زبان پر بھی ’’کلمہ سچ‘‘ کی صورت میں جاری ہو رہی ہیں۔ مصطفی کمال کے اِن ’’انکشافات‘‘ سے خیر کا پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ ایم کیو ایم ساری کی ساری ایک جیسی نہیں ہے بلکہ بے خوف ہوکر کلمہ حق بولنے والے متحدہ قومی موومنٹ میں اب بھی موجود ہیں۔
قارئین کرام! اِس بار گھر کے بھیدی نے ایم کیو ایم پر جو الزامات لگائے ہیں، وہ الزامات نئے ہیں یا پرانے؟ اور اِس سے بھی قطع نظر کہ اِسی طرح کے الزامات گزشتہ کئی برسوں سے ایم کیو ایم پر مسلسل لگتے چلے آ رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ ان الزامات کو آج تک لگانے والے کبھی سچا ثابت کر سکے اور ناں ہی ایم کیو ایم اِن الزامات کو جھوٹا ثابت کر سکی، مگر اِس کے باوجود یہ الزامات اپنی جگہ جوں کے توں موجود اور قائم ہیں۔ تو کیا تین دہائیوں تک کراچی کے نفرت اور قتل و غارت کی آگ میں جلنے کے بعد وہ وقت نہیں آ گیا کہ اب اِس معاملے کو کسی کنارے لگایا جائے؟ جس کا ایک سیدھا سادہ طریقہ تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم اگر مصطفی کمال کی جانب سے لگائے جانے والے یا دُہرائے جانے والے الزامات کا جواب دینے کی بجائے بغلیں جھانکنے لگے تو سمجھیں کہ مصطفی کمال سچا ہے اور اگر الطاف حسین کے تلوے چاٹنے والے کسی لیڈر کو اپنے ہی سابق ناظم کراچی مصطفی کمال کے ایک ایک الزام کا تسلی بخش جواب دینے کی توفیق ہو جائے اور ایم کیو ایم اِن الزامات کو ثبوتوں اور دلائل کے ساتھ غلط ثابت کر دے تو پھر سمجھیں کہ مصطفی کمال جھوٹا ہے!

مزیدخبریں