لاہور+ نارووال (خبرنگار+ نامہ نگار) وفاقی وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ و ریفارمز انجینئر احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کی مخالفت کرنیوالے مستقبل میں پاکستان کو مضبوط اور مستحکم دیکھ کر خود ہی مایوس ہوں گے، حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایک جامع حکمت عملی اپناتے ہوئے دہشت گردی کا خاتمہ کیا۔ وہ مقامی ہوٹل میں انسٹیٹیوٹ آف آرکیٹکٹس پاکستان لاہور چیپٹر آرکیٹکٹ اور تعمیرات کے زیر اہتمام تین روزہ بین الا اقومی ایکسپو کی اختتامی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا 2018ء تک ملک میں توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت مختلف منصوبوں پر کام کررہی ہے۔ راہداری منصوبہ مستقبل میں پاکستان کے لوگوں کیلئے ایک بہتر سہولت کا باعث ہو گا۔ راہداری صرف ایک سڑک کا نام نہیں بلکہ اس سے ملک میں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع، انڈسٹریل زون کے قیام اور آرکیٹکٹ کے شعبے میں لوگوں کو بے پناہ فوائد میسر ہونے کے ساتھ ساتھ ملک میں تعمیروترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ نارووال سے نامہ نگار کے مطابق 8کلومیٹر لمبے بند کی تعمیر کا افتتاح احسن اقبال نے موضع دائود میں کردیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا موجودہ حکومت عوامی مسائل کے حل اور عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرنے کیلئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ عوام کو ہمیشہ کیلئے لوڈشیڈنگ سے نجات دلائیں گے۔ لاہور میں گفتگو کے دوران احسن اقبال نے کہا کہ ملکی معیشت کو مضبوط کرنا ملک میں امن قائم کرنا اور توانائی بحران کا خاتمہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا ایجنڈا ہے ۔ہمیں اب سیاسی تھیٹر سے نکل کر اقتصادی مقابلے کی تیاری کرنی چاہئے، پاکستان میں جمہوری نظام پنپ رہا ہے ، اب عوام اتنے میچور ہو گئے ہیں کہ ملک میں کسی قسم کا خلل اور انتشار نہیں چاہتے۔ ہمیں سیاست برائے سیاست کی عادت ترک کر کے صرف اور صرف معاشی ترقی کیلئے توجہ دینا ہو گی۔ حکومت تمام سیاستدانوں ‘ دانشوروں ‘ میڈیا اور پروفیشنلز کو ساتھ لیکر چلنا چاہتی ہے تاکہ ہم پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کے تحت پیدا ہونے والے مواقعوں سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ اگر کسی بھی منتخب جمہوری حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے کا موقع دیا جاتا رہا تو پاکستان کو ایشین ٹائیگر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارامارچ ترقی ‘ خوشحالی اور امن کا مارچ ہے جو جاری رہیگا۔ مصطفی کمال کی پریس کانفرنس کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے ادارے جائزہ لے رہے ہیں۔ اگر کوئی ٹھوس شواہد سامنے آئے تو متعلقہ ادارے قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔