عرفان اللہ مروت پیپلز پارٹی میں شامل کیوں نہ ہو سکے

کہنے کو تو دنیا بھر میں میاں بیوی راضی ہوں تو قاضی کچھ نہیں کر سکتا لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا ۔ لڑکا اور لڑکی راضی بھی ہوں تو والدین کی رضامندی کے علاوہ بعض اوقات لڑکے کی بہنوں اور بہت سے دوسرے رشتے داروں کو بھی راضی کرنا پڑتا ہے ورنہ اچھی خاصی بیل منڈھے نہیں چڑھتی ۔ ایسا ہی کچھ پچھلے دنوں عرفان اللہ مروت کے ساتھ ہوا جنہوں نے بلاول ہائوس میں آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا لیکن آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کی مخالفت کی وجہ سے صرف دو دن بعد انہیں پیپلز پارٹی میں شمولیت کی تردید کرنا پڑی ۔دیکھا جائے تو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پہلی بار آصف علی زرداری کے کسی فیصلے کو اسطرح اپنے ہی گھر اور پیپلز پارٹی کے مقدر ترین حلقوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔کہنے کو تو پیپلز پارٹی میں بہت سے ایسے اشخاص ہوں گے جن کی زندگی قابل رشک نہیں کہی جا سکتی اور بہت سے حلقے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب لگتے ہیں کہ آخر عرفا ن اللہ مروت نے ایسا کیا کردیا ہے کہ وہ آصف علی زرداری کی اشیر باد کے باوجود وہ پیپلز پارٹی میں شامل نہیں ہو سکے ۔
1950میں پیدا ہونے والے عرفان اللہ مروت بزنس میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں وہ پاکستان کے سابق صدر غلام اسحاق خان کے داماد ہیںوہ سندھ حکومت میں 1989 سے کسی نہ کسی شکل میں شامل ہوتے رہے ہیں اس عرصے میں ان کے زیر انتظام ٹرانسپورٹ صحت داخلہ تعلیم اور معدنیات کے محکمے رہے ۔ 1990بے نظیر بھٹو کے سابق مشیر جام صادق علی جب وزیراعلی بنے تو سندھ کی حد تک سیاسی مخالفت عروج پر پہنچ گئی ایک طرف اایک طرف یم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو دوسری طرف الذولفقار اور پیپلز پارٹی کو اس طرح نشانہ بنایا گیا کہ بے نظیر کو ہر ممکن حد تک زک پہنچائی جا سکے ۔۔اس دور میں جام صادق کے مشیر داخلہ عرفان اللہ مروت تھے ۔ان کے اس دور میں ایک بار سندھ اسمبلی کی موجودہ ڈپٹی سپیکر اور بلا ول بھٹو کی اردو اتالیق شہلا رضا کو سی آئی اے سنٹر سے گرفتار کیاگیا راحیلہ ٹوانہ گرفتار ہوئیں لیکن اس دور کی تاریخ کا عمیق مطالعہ کر کے احساس ہوتا کہ اس دور کے تمام واقعا ت سے بھاری وینا حیات کیس تھا جس نے عرفان اللہ مروت کے کیریر کو ہمیشہ کے لئیے گہنا دیا ۔ وینا حیا ت کا اصل نام فرحانہ حیات تھا انہیں بینا قریشی بھی کہا جاتا تھا لیکن وہ وینا حیات کے نام سے مشہور ہوئیں وہ بے نظیر بھٹو کی ڈریس ڈیزائینر بھی تھیں اور انہیں بے نظیر کی قریبی دوستوں میں بھی شمار کیا جاتا تھا ۔ وہ کراچی ڈیفنس میں مشیر داخلہ عرفان اللہ مروت کے ہمسائے میں رہتی تھیں ۔27 نومبر 1991کو ان کے گھر ڈاکہ پڑا جس کے نتیجے میں تشدد گینگ ریپ اور ڈاکے کا مقدمہ درج کیا گیا ۔ہمسائے میں بھاری تعداد میں پولیس کے موجود ہونے کے باوجود ڈاکووں کا بارہ گھنٹے وینا حیات کے گھر رہنے اور خیریت سے وہاں سے نکلنے نے کئی شکوک کو جنم دیا ۔بے نظیر بھٹو سمیت بہت سے لوگوں نے عرفان اللہ مروت کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا جس کی تردید کے باوجود یہ الزام اس تواتر کے ساتھ دہرایا گیا کہ عرفان اللہ مروت کے لئیے اپنی پوزیشن کلیئر کرنا مشکل ہوتا چلا گیا ۔پولیس کی ابتدائی تفتیش عرفان اللہ مروت کو مجرم ثابت نہ کر سکی۔ عوامی پریشر اس قدر تھا کہ حکومت کو سندھ ہائی کورت کے جج جسٹس عبدالرحیم قاضی پر مشتمل تحقیقاتی تریبیونل بنانا پڑا جس نے ایک طویل تحقیق کے بعد اپنی رپورٹ جمع کرائی۔
یوں تو پاکستانی قوم بڑی محدود یاداشت کی مالک سمجھی جاتی ہے اور شائد آصف علی زرداری اور عرفان مروت نے بھی یہی سوچا ہو لیکن آصفہ اور بختاور نے اس نظریے کو غلط ثابت کر دیا ہے بختاور بھٹو نے اپنے ٹویٹ میں کہا اس ذہنی پیمار کو جیل میں ہونا چاہئیے تھا اور اسے پیپلز پارٹی کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا جانے چاہئیے ۔ آصفہ بھٹو نے اپنے ٹویٹ میں کہا جس پارٹی کی سربراہ ایک عورت رہی ہو وہ مروت جیسے کسی شخص کو برداشت نہیں کرے گی انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کی اقدار عورتوں کی عزت ا ور احترام کی امین ہیں ۔
2013 کے انتخابات میں عرفان اللہ مروت مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر صوبائی حلقہ پی ایس 114 سے منتخب ہوئے اور انہیں ایسے لوگوں میں سے ایک گنا جاتا ہے جو کسی جماعت سے وابستگی کے بغیر بھی الیکشن جیت سکتے ہیں اور بظاہر آصف علی زرداری کی کوشش بھی یہ ہے کہ وہ تنظیم سازی پر اپنی توانائی ضائع کرنے کے بجائے ایسے اشخاص کو شامل کریں جن کے لئیے الیکشن جیتنا آسان ہواور شائد اسی لئیے عرفان مروت کی پارٹی میںشمولیت کا اعلان ہوا۔آصفہ اور بختاور کے ٹویٹ کے بعد عرفان اللہ مروت نے کہا آصف زرداری کو ورغلایا گیا ہے اور یہ سازش ان کے حلقے سے پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی کرا رہے ہیںاور یوں پیپلز پارٹی میں شمولیت کے اعلان کے صرف دو دن بعد عرفان اللہ مروت کو 26 فروری کو کہنا پڑا کہ وہ پیپلز پارٹی میں شامل نہیں ہوئے اور ان کی آصف علی زرداری سے ملاقات موجودہ سیاسی صورت حال کے حوالے سے تھی ۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں کسی حد تک شخصی آمریت کا شکار ہیں اور ان جماعتوں کے سربراہ نہ صرف ہر فیصلے کو چیلنج اور ویٹو کر سکتے ہیں بلکہ ان کے گئے فیصلے کو کوئی چیلنج بھی نہیں کر سکتا بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری کی قیادت کو پہلی دفعہ چیلنج کیا گیا ہے جو آصف علی زرداری کی مفاہمت کی سیاست کا امتحان بھی ہے اور عرفان اللہ مروت کی آئندہ حکمت عملی پرایک سوالیہ نشان بھی ۔

ای پیپر دی نیشن