کراچی (صباح نیوز+ نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو آج منگل تک مستقل سیکرٹری قانون اور سیکرٹری آبپاشی تعینات کرنے کا حکم دیتے ہوئے دونوں افسروں کے تعیناتی کا نوٹیفیکیشن طلب کر لیا ہے۔ منچھر جھیل آلودگی کیس کی سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم سمیت تین رکنی بنچ نے کی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی جیل کو آلودگی سے پاک کرنے سے متعلق عملدرآمد رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ ہم نے ستمبر میں حکم دیا تھا۔ منچھر جھیل پرآراو پلانٹ لگائے جائیں آپ بتائیں کہ آراوپلانٹس کی تنصیب کس کی ذمے داری ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ یہ پبلک ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کی ذمے داری ہے جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کون سے رولزآف بزنس پڑھ رہے ہیں؟ ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ محکمہ آبپاشی کو آر او پلانٹس فراہم کر دئیے تھے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا نااہل افسر محکموں میں تعینات ہوں گے تو ایسا ہی ہوگاآج ہم سب کو فارغ کرکے جائیں گے آپ لوگوں نے سیکرٹری آبپاشی بھی ایسے شخص کو لگا دیا جس کا وہ شعبہ ہی نہیں یہ لوگوں کی زندگی اور موت کا معاملہ ہیں سنگین معاملے پر سندھ حکومت کا طرز عمل سمجھ سے بالاتر ہے۔ سپریم کورٹ نے سندھ حکومت پر اظہار برہمی کرتے ہوئے فراہمی ونکاسی آب کمشن کی رپورٹ عام کا حکم بھی دیا ہے۔ عدالت نے ایم ڈی کراچی واٹر بورڈ مصباح الدین فرید کو فی الفور ہٹانے کی ہدایت کی اور چیف سیکرٹری کو حکم دیا کہ کیڈر افسرکو ایم ڈی بنایا جائے۔ سپریم کورٹ نے کہا سندھ کے لوگ منچھر جھیل کا زہریلا پانی پی کر مر رہے ہیں، 2004ء سے اب تک سندھ حکومت واٹرایکسپرٹ تیار نہ کرسکی اور نہ کسی کی خدمات لیں، آپ فنڈزکا رونا روتے رہیں‘ ڈھائی سال میں جانے کتنے ہزار لوگ مرجائیں گے۔ ایم ڈی واٹر بورڈ نے بتایا کہ محمود آباد ٹریٹمنٹ پلانٹ پر کام بند اور لوگوں کا قبضہ ہے۔ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے اس پر استفسار کیا کہ زمین کس نے لیز پر دی،کون مئیر تھا؟،جس پر سیکرٹری بلدیات نے عدالت کو بتایا کہ سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے زمین لیز پر دی۔ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے سیکرٹری بلدیات سے کہا کہ رفاہی پلاٹ لوگوں کو لیز پر دے دیا گیا، آپ نے اپنی ذمے داری ادا نہیں کی، خود کمپنی بنائی خود معاہدے کر ڈالے کونسا قانون ہے؟، لگتا ہے کمپنی بناکرخود معاہدے کرکے پیسے جیب میں ڈالے جا رہے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ نساسک کاکیاکوئی خفیہ معاہدہ ہے؟ صبح سے مانگ رہے ہیں کوئی پیش نہیں کررہا۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے تفصیلی جواب جمع کرانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت مانگ لی۔ جسٹس قاضی نے اس یقین دہانی پر وقت دینے کا کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل اور تمام سیکرٹریز نلکے کا پانی پئیں گے،جس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ یہ تو منرل واٹر بھی دبئی والا پیتے ہیں۔ماہر آبی امور پروفیسر احسن نے کہا جھیل میں گرنے والے آلودہ پانی میں آرسینیک میگنیشیم اور کیڈمینیم شامل ہورہا ہے جو انتہائی خطرناک بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے،عدالت میں چیف سیکرٹری کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ایک منصوبہ بنایا جارہا ہے جو آر بی او ڈی منچھر جھیل کو بائی پاس کرے گابائی پاس کرنے کے بعد یہ فضلہ سمندر می9 جائے گا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جھیل کو بچا کر سمندر کو آلودہ کیا جائے گا کیا آپ کے پاس کوئی ماہر نہیں جو ان ناقص منصوبہ کی جگہ کوئی اچھا منصوبہ بنائے، محکمہ آبپاشی میں تیس ہزار اور ای پی اے میں 130 ملازم ہے،مگر اس میں سے کوئی ایک بھی ماہر آبی نہیں ہم نیوکلیئر پاور کو بنانے کا نہیں کہہ رہے صرف پانی کے مسئلے کو حل کرنے کا کہہ رہے ہیں،اگر ہم سے یہ بھی نہیں ہوتا تو یہ باعث شرم کی بات ہے یہ انسانی زندگی اور موت کا معاملہ ہے، عدالت اس پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ علاوہ ازیں عدالت میں پینے کے پانی کی فراہمی سے متعلق کیس میں سندھ کے شہریوں کو فراہم کئے جانے والے پینے کے پانی میں ہیپاٹائٹس بی، جگر کے سرطان، خون کی کمی اور بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ ڈالنے والے وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ متعلقہ حکام پینے کے پانی میں شامل وائرس کی موجودگی کی بات سے بے خبر ہیں۔