شہر کراچی جہاں ہر شاہراہ پر ٹریفک کا ایک اژدھام دن رات رواں رہتا ہے اور اکثر شاہراہوں پر ٹریفک جام کی وجہ سے شہریوں کو شدید اذیت ہوتی ہے اہم شاہر ہوں پر گاڑیوں کی لمبی قطار ہارن بجاتی ایک دوسرے سے راستے کی طلب گار رہتی ہے۔ اکثر شاہراہوں پر سائرن بجاتی ایمبولینسیں میں موجود ڈرائیور مائیک پر گاڑیوں سے راستہ مانگتے رہتے ہیں۔ سڑکوں پر ایمبولینس سائرن کے ساتھ ڈرائیور کی آواز بھی گونج رہی ہوتی ہے ۔ ایمبولینس ڈرائیورز کی زندگی خطرات سے گھری ہوتی ہے ایک جانب اسے کسی کی زندگی بچانے کی فکر ہے تو دوسری جانب ایک رحم دلی کا جذبہ بھی ہے۔ ذہنی کشمکش بھی ہے۔ دن رات لاشوں، زخمیوں اور مریضوں کے ساتھ سفرآسان نہیں، تیز گاڑی چلانا، ایمبولینس میں رونے کی آواز‘ چیخ و پکار اچھے بھلے انسان کی ذہنی صحت کو متاثر کر دیتی ہے۔ ہم لوگ بے حس ہو چکے ہیں کہ ہم ایمبولینس میں جانے والے مریضوں کی جانوں کی پروا نہیں کرتے، ان کی زندگی کی دعا نہیں کرتے۔ میں نے کئی ایسے ایمبولینس ڈرائیورز کو بھی دیکھا ہے جو اپنی معاشی مشکلات، دن بھر کی مشقت اور ذہنی پریشانی کے باعث نفیساتی مریض بن گئے ہیں، ایمبولینس ڈرائیور خود بھی ایک انسان ہیں ان کے بھی احساسات ہیں۔ جان بچانے والی ذات تو بے شک اللہ رب العزت کی ہے لیکن ایمبولینس ڈرائیورز وسیلہ ہیں اس وسیلے کو سلامت رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمارا المیہ یہی تو ہے کہ ہم اپنے مسیحاؤں کو بھی بھول جاتے ہیں۔ موٹر سائیکل سوار مین شاہراہوں پر دیوارِ چین بن جاتے ہیں۔ انہیں پیچھے سے آنے والی ایمبولینس کے سائرن کی پروا نہیں ہوتی۔ بعض اوقات سگنل پر بس ڈرائیورز‘ سی این جی رکشا والے اپنی سواری کے لئے گاڑی سائیڈ پر نہیں کرتے بلکہ روڈ کے درمیان میں گاڑی روک کر سواری اتارتے اور چڑھاتے ہیں انہیں ایمبولینس سائرن کی آواز سے کوئی مطلب نہیں انہیں اپنی سواری سے غرض ہے۔ ان کے پیچھے سائرن بجاتی ایمبولینس میں مریض‘ زخمی مرتا ہے تو مرے۔ کراچی جیسے شہر میں اگر کوئی حادثہ‘ سانحہ‘ یا کسی کو ہارٹ اٹیک ہوجائے اگر ایمبولینس بروقت مریض تک پہنچ بھی جائے تو مریض کو اسپتال پہنچانے میں انہیں کس کرب سے گذرنا پڑتا ہے۔ کہیں ٹریفک سگنل بند ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں تو کہیں موٹر سائیکل سوار تو کہیں بسوں کے بے جا اسٹاپ‘ تو کہیں سی این جی رکشائوں کی غلط لائن میں ڈرائیونگ جیسے مسائل۔ ہر کسی کو جلدی ہوتی ہے منزل پر پہنچنے کی مگر لوگ یہ نہیں جانتے ہیں کہ ان بھی زیادہ جلدی اس مریض کو ہے جو موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا ایمبولینس میں لیٹا ہوا ہے۔ شہر میں ٹریفک انتظامیہ کی غفلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اکثر شاہراہوں پر رانگ سائیڈ سے آنے والی گاڑیوں‘ موٹر سائیکلوں‘ رکشائوں سے شاہراہوں پر ٹریفک جام ہوجاتا ہے جس کا خمیازہ ایمبولینس والوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ جو مارکیٹیں مین شاہراہوں پر ہیں وہاں ٹریفک زیادہ جام رہتا ہے اس کی وجہ دکانوں کے سامنے مین شاہراہ پر گاڑیاں کی غلط پارکنگ سے شاہراہ بلاک ہوجاتی ہے ۔شاہراہ فیصل پر وی آئی پی موومنٹ‘ آئے دن کے مظاہرے، جلوس، مذہبی اجتماعات کے باعث بھی ٹریفک کی روانی میں خلل پڑتاہے‘ رات کے پہر شادی ہالوں پر براتیوں‘ کی گاڑیوں‘ بسوں کی مین شاہراہوں پر غیر قانونی پارکنگ کی وجہ سے ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔کہیں شادی کے شادیا نوںمیں ناچ گانوں پر رقص ہورہا ہوتا ہے تو باہر مین روڈ پر ٹریفک جام میں پھنسی ایمبولینس میں مریض زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا اپنی بجھتی آنکھوں سے تماشا دیکھ رہا ہوتا ہے۔ سرکاری نوعیت کے روٹس بھی ایمبولینس کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات معمولی نوعیت کی توتکار پر بھی ٹریفک بلاک ہو جاتی ہے۔ ایمبولینس خالی ہو تو بھی اْسے راستہ دینا چاہیئے ہوسکتا ہے وہ کسی مریض، کسی زخمی ، کسی آگ سے جلے کو اْٹھا لانے جارہی ہو۔ غیر منظم اور غیرقانونی انداز میں گاڑیوں کو شاہراہوں پر لمٹ سے زیادہ اسپیڈ میں چلانا اپنا ٹریک چھوڑ کر دوسرے ٹریک پر تیز رفتاری سے نکلنے کے لیے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی جیسے اقدامات بھی ایمبولینسوں کے لئے مشکل پیدا کرتے ہیں۔بعض مقامات پر ایمبولینس ڈرائیور کے ساتھ لڑائی جھگڑا بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ جب موت زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے تو زندگی بچانے کیلئے آپ کی مدد کرنے والا کیونکر قصور وار ہو سکتا ہے۔ تمام گزرگاہوں’ راستوں اور شاہراہوں کو صاف ستھرا اور کھلا رکھنے کا اصول ساری دنیا میں یکساں طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ زندگی اْصولوں کا دوسرا نام ہے۔ قواعد وضوابط کی پاسداری کا عکس ہے، دوسروں کیلئے قربانی اور ایثار کا جذبہ ہے۔