مسلم لیگ ن کا انتخابی جنگ میں کامیابیوں کا سلسلہ بدستور جاری نظر آرہا ہے جس کے دوران وہ تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے سینٹ جیسے بڑے اورمضبوط قلعے کو بھی فتح کر چکی ہے۔ مسلم لیگ کی کامیابیوں کا سلسلہ پچھلے دِنوں پنجاب کی تین انتخابی چوکیوں این اے 120.122 اور154 میں ہونے والی ضمنی انتخابی جنگ سے شروع ہوا تھاجس کے دوران اُسکے سیاسی جنگی جوہر کھل کے سامنے آئے اور اُس نے یکے بعد دیگر ے پہلے 120اور 122کی دونوں چوکیوں کا صفایا کیا پھر اُس کے بعد 154کے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ناقابل ِ تسخیر قرار دیئے جانے والے جہانگیری قلعے کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ واضع رہے کہ اس جنگ میں صرف پی ٹی آئی ہی اِ س کے مدِ مقابل نہیں تھی بلکہ پیپلز پارٹی جماعت اسلامی ایم کیو ایم جے یو آئی ف اوردیگر چھوٹی علاقائی پارٹیوں کے علاوہ بعض حلقے بھی اُسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے مگر اِ س حصار کو وہ توڑ نے میں نہ صر ف کا میاب رہی بلکہ تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے وہ سینٹ کے قلعے تک جا پہنچی جہاں جاں توڑ کوششو ں کے بعد اُس پر وہ اپنا جھنڈا لہرانے میںبلا آخر کامیاب ہو گئی ۔ سینٹ کے حالیہ انتخابات پر تجزیاتی نگاہ ڈالی جائے تو واقعی موجودہ سیاسی صورتحال میں یہ کسی جنگ سے کم ہر گز نہیں تھے اورجنگ بھی ایسی جس میں ایک پہلوان کے مقابلے میں دس دس پہلوان اکٹھے زور لگا رہے ہوں بلکہ ریفری بھی اِسی ایک ہی کو گرتا دیکھنا چاہ رہے ہوں۔ہماری اِس تمہید کا مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) واقعی عروج کے بعد بُرے حالات سے گذر رہی جن کے یوں اچانک پیش آجانے کا اندازہ اِسے یقینا نہیں ہوگا کہ وہ ایک ایسے موڑ پر آکر ہر طرف سے کئے جانے والے اچانک’’ محاصرے‘‘ کی وجہ سے بے بس ہو جائے گی جس موڑ پر وہ ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے بعداِسے معاشی لحاظ سے مضبوط کرتے ہوئے اِس کی مزید کامیابیوں کیلئے تیزی سے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہوگی ۔مگر ہم آپ اور سب یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہو تا ایسا ہی نظر آ رہا ہے ۔مسلم لیگ کو یہ انتخابی فتوحات ایسے وقت میں حاصل ہو رہیں جب اِس کے قائد سابق وزیر اعظم نوازشریف وزارت عظمی ٰ کے عہدے سے ہٹ چکے ہیں بلکہ پارٹی صدارت کے بعد اُن کی جماعت سینٹ سے باہر کئے جانے کی کوششوں کی زد میں آکر اپنے انتخابی نشان تک سے محروم ہو چکی ہے۔ا س تمام تر صورتحال پر دیانتدارانہ تجزئیہ کیا جائے تو بات لمبی ہو جائے گی توکیوں نا ہم بات کو مختصرکرتے ہوئے ہم اپنے پڑھنے والوں کو پیش گوئی کی صورت میں ایک ا ہم بلکہ انتہائی اہم ترین خبر دے دیںاوروہ یہ کہ اِ س تما م تر صورتحال کا اصل مقصد ملک کے مستقبل کے سیاسی منظر سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بمعہ اُن کے شیر والے انتخابی نشان کے ہٹانے کو شیشیں آخری مراحل میں داخل ہو چکیں ہیں جن کا آغاز پانامہ جے آئی ٹی کے تحقیقاتی عمل کے دوران ہی ہو چکاتھا ۔یعنی مختصرمگر بامعنی لفظوںمیں یہ کہ نواز شریف الطاف حسین کی پوزیشن پر جاتے نظر آ رہے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف آنے وال وقت میں ملک کے سیاسی منظر سے ہٹا دیئے جاتے ہیں جو یقینی معلوم بھی ہو رہا ہے تو ایسے میں اُس مسلم لیگ کا نیا نام کیا ہوگا جو اِس وقت نواز شریف کی وجہ سے (ن) لیگ کہلائی جا رہی ہے توہم یہ بھی بتائے دیتے ہیںکہ مسلم لیگ سے’’ ن ‘‘سے مسلم لیگ ’’ش‘‘ہو جائے گی یعنی مسلم لیگ’’ شہباز‘‘مگر رہے گی مسلم لیگ ہی اور شریف برادران کی ہی۔اور جہاں تک ہماری رائے کا تعلق ہے تو یہ رہنی بھی شریف برادران کے پاس ہی چاہیے کہ یہ دو ایسے برادران ہیں جنہوں نے مسلم لیگ کو ابھی تک ملکی سیاسی عمل میں زندہ رکھا ہوا ہے ورنہ تو ذوالفقار علی بھٹو نے اِسے سیاسی طور پر تقریباً تقریباً مفلوج کر کے رکھ دیاتھا جس کے بعد پیپلز پارٹی بام ِ عروج پر پہنچی مگر رفتار و حادثات ِ زمانہ کے آج وہی پیپلز پارٹی سیاسی و پارٹی ساکھ کے لحاظ سے ؟ سرِ دست سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ سینٹ کا قلعہ فتح کر تو چکی ہے تو کیا اب سینٹ کی بادشاہت کا تاج اِسی کے سرسجے گا یا کسی اورکے، کسی او ر سے مراد یعنی پیپلز پارٹی کے ؟ اس حوالے سے جہاں تک ہماری رائیکا تعلق ہے تو یہی کہ اتنی ساری کامیابیوں وہ بھی روکاوٹوںکے باوجود حاصل کرنے کے بعد چیئرمین شپ تو اِسی کا حق بنتا ہے مگر چونکہ ہم ن لیگ کے ساتھ ہونے والے معاملات قریباً پوری طرح کھول کر واضع کر چکے ہیں تو اِس کے تناظر میں کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ سینٹ چیئر مین اِسی کا ہو،یقینا نہیںہو سکے گا،اور اگر فرض کر لیا جائے کہ چیئرمیں سینٹ ن لیگ کا ہو جا تا ہے تو جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کی کہ سیاست میں کوئی چیز حر ف ِ آخر نہیں ہوا کرتی تو یہ خدائی معجزہ ہوگا ۔ کیونکہ سینٹ کی انتخابی ریس جیتنے والے آزاد سیاسی گھوڑے اپنی جیت کی منہ مانگی قیمت وصول کرنا اپنا سیاسی حق سمجھ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف انہیںاُن کی منہ مانگی قیمت دینے والے کنگ میکر بھی نوٹوں سے بھرے بریف کیس بمعہ اپنے پیادوں کے بلوچستا ن بجھوا چکے ہیں تو ایسے میں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ تو ایسے میں اگر ہم بھی اپنی طرف سے ایک سوال محترم رضا ربانی صاحب سے آخر میں پوچھ ہی لیں تو اِس میں کیا حرج ہے، وہ یہ کہ متذکرہ بالا تمام حالات پر غور سے دیکھا جائے تو اِن حالات میں تو سینٹ کا تقدس سوالیہ نشا ن بن چکا ہے تو اگر اس بار بھی حسب ِ روایت سینٹ چیئرمین کا انتخاب پیپلز پارٹی کی طرف سے ’’نوٹوں ‘‘ ہی کے بَل بُوتے پر عمل میں آیا تو پھر سینٹ کے اُس’’ تقدس‘‘ کا کیا ہو گا جس کے وقار کی باوقار باتیں وہ بحیثیت چیئرمین سینٹ اکثر مواقعوں پر تواتر سے کرتے رہتے تھے۔؟
سینٹ کے حالیہ انتخابات
Mar 07, 2018