تلخیِ دوراں

Mar 07, 2018

رقیہ بھابھی مجھے گلی میں ملیںتو سلام دعا کے بعد میں نے پو چھا کہ کیا بات ہے اب آپ کے بچے شام کے وقت گلی میں نہیں کھیلتے ۔کہنے لگیں بھا ئی کیا کروں اعصاب پر ایک انجانا سا خوف طا ری ہو گیاہے۔آ ئے دن اخبارات میں اور مختلف ٹی وی چینلز پر ننھی منی معصوم بچیوںکی عصمت دری اورپھر بہیمانہ قتل کے بعدانکی لاشیں ویرانوں اور گندے جو ہڑوں میں پھینکے جانے کی خبریں شائع اور نشر ہو تی رہتی ہیںجس سے دل دہل جاتا ہے۔اور اپنی ہی گلی میں بچوں بچیوں کو کھیلنے کے لئے بھیجنے سے ڈر سا لگنے لگا ہے۔پھر گو یا ہو ئیں کہ ایک دو بار گلی کی نکڑ پر ایک اجنبی کو بھی کھڑے دیکھا گیا ہے۔اب تو میں اپنے بچوں بچیوں کو سکول چھوڑنے اور لینے بھی خود جاتی ہوںحالا نکہ انکا سکول بہت زیادہ دور بھی نہیں ہے۔یہ سب کہتے ہو ئے میرے گھر سے چار پانچ گھروں کے فاصلے پر رہنے والی رقیہ بھابھی کے چہرے سے انکے اندر کی پریشانی صاف عیاں تھی۔وہ بنا رکے بولے چلی جا رہی تھیں اور میں غیر ارادی طور پر ا پنا سر ہلا کر انکی ہاں میں ہاں ملا رہا تھا۔ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھیں رقیہ بھابھی۔واقعی گزشتہ دنوں میں ان معصوم کلیوں کے مسلے جانے کے واقعات اس قدر تواتر کے ساتھ رونماء ہو ئے ہیں کہ لگتا ہے جیسے وطن عزیز میں ہر بچی غیر محفوظ ہو کر رہ گئی ہے۔کبھی کسی زینب کی نوچی ہو ئی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملتی ہے توکبھی کسی عا ئشہ کی ،کبھی کسی لا ریب کی مسلی ہو ئی لاش گندے جو ہڑ میں تیر رہی ہو تی ہے تو کبھی کسی کا ئینات کی۔ بد نصیبی تو یہ ہے کہ کچھ وا قعات میں تو ان معصوم کلیوں کو روندنے والے قریبی عزیز اور ملنے والے بھی نکلے ہیں جو رشتوں پر اعتماد اور بھروسے کی مضبوط فصیل میں دراڑ ڈالنے کا سبب بنے ہیں۔ سگا چچا ،ماموں یا قریبی عزیز تو ہمیشہ سے بے لوث محبتوں اور تحفظ کے مینارے سمجھے جا تے رہے ہیں۔لیکن آج ان رشتوں پر سے اعتبار بھی اٹھتا چلا جا رہا ہے۔اسی طرح ہمسائے کو تو سدا سے ماں پیو جایا کہا اور سمجھا جاتا رہا ہے لیکن کچھ وا قعات ایسے بھی رو نماء ہو ئے ہیں جن میں ہمسائے بھی درندگی کے پیکر ثا بت ہو ئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ما ئیں اب اپنی معصوم بیٹیوں کو قریبی عزیزوں اور ہمسایوں کے ہاں بھیجنے سے بھی گریز کرنے لگی ہیں۔بچپن کے آ نگن میں کھیلتی ہو ئی بیٹیاںتو ویسے ہی بہت پیاری لگتی ہیں۔انکی توتلی زبان سے اد ا ہو نے والے معصومیت اور سچا ئیوں کی شیرینی میں گھلے الفاظ تو خود بخود دل میں اترتے چلے جا تے ہیںتو پھر محو حیرت ہوں کہ ایک مسلم معا شرے میں بسنے والے اس ترقی یا فتہ دور کے تعلیم یافتہ انسان کیسے اس درندگی پر آ مادہ ہو جاتے ہیں۔اور پھر جن کے اپنے خاندانوں میں بھانجیوں اور بھتیجیوں کی صورت میں بچیاں موجود ہوںان کے ضمیر کیسے سو جا تے ہیں۔انہیں دوسروں کی بچیوں میں کیوں اپنی بچیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ حد تو یہ ہے کہ کچھ شیطان ایسے بھی ہیں جو شادی شدہ ہیں ۔ جنکے اپنے گھر میں بیویاں مو جود ہیں اس کے با وجود وہ اس فعل بد کا ارتکاب کرتے ہیں۔اسی لئے ما ہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ یہ جسمانی جبلت سے زیادہ نفسیاتی پیچیدگی کا مسئلہ ہے۔ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے سنہرے دور میں سانس لے رہے ہیں۔تعلیم و تدریس کے بے شمار ذرائع اور وسائل معرض وجود میں آ چکے ہیں۔تعلیمی اداروں سے سیر حاصل حصول علم کے مواقع کے ساتھ ساتھ اب تو ہر عمر کے لوگوں کے سامنے علم و دانش کے سمندر موجزن ہیں۔ اخبارات، رسائل، ریڈیو،ٹی وی،کمپیوٹر اور سب سے بڑھ کر اینڈرائیڈ موبائل فون یہ وہ ذرائع ہیںجہاں سے ترسیل علم کے سیل رواں ہمہ وقت جاری رہتے ہیں۔پھر کیا وجہ ہے ۔وہ کیا چیز ہے جو ایک اشرف المخلوقات کو وحشی اور حیوان بنا دیتی ہے۔جو ایک مسلم معاشرے کے پروردہ انسان کو بے راہ رو اور رشتوں کے تقدس کا قاتل بنا دیتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ دین سے دوری،بے روزگاری،معاشی نا ہمواری، مسلسل فراغت ،قانونی پیچیدگیاں اورسزاوں پر بر وقت عمل کا نہ ہونا، فلٹر ہو ئے بغیر انٹر نیٹ تک۲۴ گھنٹے رسائی اور دین کی تعلیم کی ترسیل کے ذمہ داروں کا دیگر فروعی مسائل میں عوام کو الجھائے رکھنا اس کی بڑی وجوہات ہیں۔ آپ اب صرف حکومت وقت یا کسی خاص طبقے یا ادارے کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔یہ تغافل اجتماعی کے ذمرے میں آتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ان جرائم کے پیچھے کچھ خاص مقاصد بھی ہو تے ہیں چلئے ایک لمحے کے لئے مان بھی لیتے ہیں کہ ایسا ہے لیکن میں یہ سمجھنے سے معزور ہوں کہ ایک انسان جسے فرشتوں سے بہتر کہا گیا ہے جو مسجود ملا ئک ہے کیسے کسی کا آلہ کار بن سکتا ہے یا تھوڑی سی مالی منفعت کے لئے کیسے وہ اپنے مرتبے سے نیچے گر سکتا ہے۔اس بات سے انکار نہیں ہے کہ انسانی معاشروں میں جرائم جنم لیتے رہتے ہیں انکی بیخ کنی بھی ہو تی رہتی ہے لیکن چند برس کی ننھی منی بچیوں کے ساتھ اسقدر گھنا ونے فعل پر انسان آ مادہ ہی کیسے ہو جاتاہے۔اس سے اس نظریئے کو تقویت ملتی ہے کہ واقعی یہ جسمانی سے بڑھ کر ایک نفسیاتی مسئلہ ہے میرے نزدیک اس کا علاج احکام الہیہ کی تشہیر اور جزاء و سزا کے تصور کی تبلیغ میں ہے اور اس کے لئے تمام طبقہ ہائے فکر کے لو گوں کو آ گے آنا ہو گا۔خاص طور پر کارزارِ جہالت میں اپنے قلم سے روشنی پھیلانے والوں کو سعیِ مسلسل سے اس کا سد باب کرناچا ہئے۔اس کے لئے شا عر ، ادیب اور دانشور دیگر ذمہ داروں کے شانہ بشانہ اس فریضے کی اد ائیگی کر کے معا شرے میں پھیلے اس نا سور کو ختم کر سکتے ہیں۔ شاعر اپنی نظموں ادیب اپنی تحریروں ، دانشور اپنے لیکچروں اور علماء کرام اپنے خطبات میں اس نازک مسئلے کو شامل کر کے اصلاح معا شرہ کا کام کر سکتے ہیں۔ہم تو ہمیشہ اپنی اقدار پر نازاں رہے ہیںجن میں بزرگوں کا احترام اور بچوں سے شفقت کا پہلو سدا نما یاں رہا ہے۔اور پھربیٹیاں تو ویسے بھی پیار و محبت کا محور و مرکز رہی ہیںخواہ اپنی ہوں یا کسی رشتے دار یا ہمسائے کی تو پھر یہ غیر انسانی روش کیوں اور کس لئے۔میں سمجھتا ہوں ہمیں اس بھولے ہو ئے سبق کو دہرانے کی ضرورت ہے جو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہمیں دیا۔ہم مسلسل تعلیم کے ذریئے اس معا شرتی مسئلے کی بیخ کنی کر سکتے ہیں۔ معاشرے کے ہر فرد کو اسکی ذمہ داری کا احساس دلا کرقوم کیلئے سود مند بناسکتے ہیں۔۔

مزیدخبریں