پاکستانی رویہ میں فیصلہ کن تبدیلی نہیں دیکھی،امریکہ

واشنگٹن (این این آئی+ صباح نیوز) ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے کہا ہے کہ کابل میں منعقدہ بین الاقوامی امن اجلاس کے بعدہم نے پاکستان کے رویے میں ابھی تک کوئی فیصلہ کن یا واضح تبدیلی نہیں دیکھی۔ تاہم بقول اہلکارہم یقینی طور پر ان معاملات پر پاکستان کے ساتھ رابطے میں ہیں جہاں ہم سمجھتے ہیں کہ وہ طالبان کی سوچ کی تبدیلی میں کوئی کارگر کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بات واشنگٹن میں میڈیا بریفنگ کے دوران بتائی۔ جب ان سے پوچھاگیا کہ آیا ایسے میں جب امریکہ نے پاکستان کی امداد منجمد کردی ہے، معاملہ جب افغانستان کا ہو تو کیا پاکستان کے رویے میں کوئی تبدیلی دیکھی گئی ہے؟ اہلکار نے بتایا کہ ہم حکومتِ پاکستان کے ساتھ تعلق کی ابتدا کے مرحلے میں ہیں۔ ابھی اعلیٰ سطحی تبادلوں کا سلسلہ ہوگا۔ جس ضمن میں پاکستان کی سکرٹری خارجہ، تہمینہ جنجوعہ واشنگٹن میں ملاقاتیں کرنے والی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان سے دور نہیں ہو رہے ہیں۔ ہمارے فوجی اور سویلین چینلز دونوں کی جانب سے انتہائی زوردار مکالمہ ہونے والا ہے، آیا ہم کس طرح سے مل کر کام کرسکتے ہیں۔ افغانستان کے استحکام میں مدد دینے کے حوالے سے پاکستان ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان مذاکرات کے لیے سہولت کاری کی فراہمی میں یقینی طور پر مدد دے سکتا ہے اور ایسے اقدام اٹھا سکتا ہے جس کے نتیجے میں دباؤ ڈالا جاسکے اور طالبان کی حوصلہ افزائی ہو کہ وہ سیاسی مذاکرات کے ذریعے تصفیے کی جانب قدم اٹھائیں اور پاکستان کے ساتھ ہمارا رابطہ اس لیے ہے کہ ہم کس طرح سے مل کر کام کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں امر یکہ نے کہا ہے کہ طالبان افغان صدر اشرف غنی کی مذاکرات کی پیش کش پر سنجیدگی سے غورکریں۔امریکا نے افغان طالبان کو مذاکرات کی تجویز دے دیتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت سے مذاکرات طالبان کی شکست نہیں ،مذاکرات ہی افغانستان میں قیام امن کا واحد حل ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے کہا کہ افغان صدر طالبان سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ نہیں کررہے بلکہ برابری کی بنیاد پر خطے میں امن کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔ایلس ویلز نے افغان صدر کی مذاکرات کی دعوت کو سراہا اور کہا کہ انہوں نے طالبان کو ایک بہترین آفر دی ہے۔

ای پیپر دی نیشن