حمیت نام تھا جس کا …

Mar 07, 2018

مکرمی! کیا لکھوں اور کہاں سے لکھوں؟ تابِ نظارہ ہے نا ہی تابِ سُخن۔ زبان گُنگ ہوئی جاتی ہے، جگر چھلنی ہے، دل گھبرا رہا ہے، بدن پر مُردنی چھائی ہوئی ہے اور کپکپاہٹ طاری ہے۔ ہاتھ کام کرنے کو تیار نہیں۔ حواس جواب دیئے جا رہے ہیں۔ مسلم تو مسلم ہی ہوتا ہے، وہ نہ چینی ہوتا ہے اور نہ یونانی، وہ شامی ہوتا ہے اور نہ افغانی و پاکستانی، وہ تو صرف مسلم ہوتا اور جسدِ واحد۔ یہ تقسیم توکفارِ مغرب کی پیدا کردہ ہے۔ یہ اپنے ہی خون میں لَت پَت پڑی مجھے مدد کے لئے پُکارنے والی بچی کیا میری نہیں؟ مگر میں اس کی کوئی مدد ہی نہیں کرسکا۔ کیا کوئی باپ اپنی بیٹی کی پُکار پر بھی کبھی اس قدر سستی، کاہلی اور بے عملی کا مظاہرہ کر سکتا ہے؟ یہ کیمیائی گیس کے بمبوں سے دم گُھٹے اور ڈھیر ہوتے معصوموں کے گلی گلی پڑے لاشے! ان معصوموں سے کیا گناہ سرزد ہوگیا تھا جو ان کھیلتے کودتے بچوں پر کیمیائی بم برسائے گئے؟ یہ گلے کٹی معصوموں کی نعشیں کس کو پُکار رہی ہیں؟ یہ کس کے کرتوتوں کی طرف اشارہ کر رہی ہیں؟ کیا ایسا کرنے والے مسلمان ہو سکتے ہیں؟ کیا ہماری غیرت وحمیت ختم ہو چکی ہے؟ ’’حمیت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے‘‘۔ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ اور پورے عالم کے لئے نمونہ اور نظیر بننا تھا۔ اسکی عساکرِ ’’غزوہِ ہند‘‘ کے غازیوں کی پیشرو اور آمین ہیں۔ یہ اسلامی فوجی اتحاد نامی فوج کہاں ریت کے ذروں میں گُم ہوگئی ہے؟ جناب رجب طیَّب اردگان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوجاؤ۔ شامی مسلمانوں اور ان کے بچوں کی حفاظت فرما اور اپنے کرم سے ان کے لئے کوئی سبیل نکال۔(میاں رمضان…ٹاؤن شپ، لاہور)

مزیدخبریں