شام میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا پر خواتین اور بچوں کی خون آلود لاشیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ معصوم بچے اپنے والدین کے بغیر اپنی جانیں بچانے کیلئے صحرائوں میں نامعلوم منزل کی جانب سفر کرتے نظر آتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انسانیت شرمناک اور وحشیانہ حد تک زوال پذیر ہوچکی ہے۔ مسلمان ورلڈ پاورز کی گریٹ گیم کا شکار بن چکے ہیں۔ امریکہ مڈل ایسٹ کے تیل اور گیس پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتا ہے اور ہر اس ملک کو عدم استحکام کا شکار رکھنا چاہتا ہے جو اسکے مفادات کیلئے خطرہ بن سکتا ہے۔ ترکی، ایران اور پاکستان امریکہ کے نشانے پر ہیں یہ تینوں مسلمان ملک اگر سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم ہوجائیں تو عالم اسلام کے مفادات کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکہ کو چین اور روس کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرورسوخ سے بھی خطرہ ہے۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد سے نئی حکمت عملی اختیار کررکھی ہے۔ اس نے القاعدہ، طالبان اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو تخلیق کیا انہیں سرمایہ اور اسلحہ فراہم کیا تاکہ مذہب کے نام پر عالم اسلام کے امن کو برباد کردیا جائے اور مسلمان ممالک معاشی طور پر مستحکم نہ ہوسکیں۔ امریکہ مڈل ایسٹ میں شیعہ سنی کارڈ کو بڑی مہارت سے استعمال کرکے مسلمان ممالک کے درمیان کشیدگی اور تنائو پیدا کررہا ہے تاکہ اس کا اسلحہ بکتا رہے۔ عرب ممالک کے عیاش حکمران موجودہ صورتحال کے خود ذمے دار ہیں وہ اگر اللہ کے واضح احکامات کی روشنی میں متحد ہوجائیں تو بڑی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے انکے پاس وسائل موجود ہیں۔
امریکہ مسلمان ممالک کے اختلافات سے پورا فائدہ اُٹھارہا ہے اور کشیدگی بڑھانے کیلئے ہر ممکن حربہ استعمال کررہا ہے۔ افسوس عالم اسلام میں آج ایک بھی ایسی قدآور شخصیت موجود نہیں ہے جو عالم اسلام کو متحد کرنے کی اہل ہو۔ امریکہ، لیبیا، سوڈان، مصر اور یمن کے بعد شام کے صدر بشرالاسد کی حکومت کا تختہ اُلٹنا چاہتا ہے۔ روس بشر الاسد کا ساتھ دے رہا ہے تاکہ مڈل ایسٹ میں امریکہ کے مکمل غلبے کو روکا جاسکے۔ ایران بھی شام کا ساتھ دے رہا ہے۔ امریکہ براہ راست آگ میں کودنے کے بجائے دہشت گرد تنظیموں کو استعمال کررہا ہے جنہوں نے دمشق سے دس کلو میٹر فاصلے پر غوطہ شہر پر قبضہ کررکھا ہے جو 2013ء سے شامی فوجوں کے محاصرے میں ہے۔ غوطہ میں چار لاکھ مسلمان انتہائی تشویشناک حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ شعب ابی طالب یاد آتا ہے جب مکہ کے قریش نے مسلمانوں کو نظر بند کردیا اور ان کو تین سال انتہائی تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ شامی افواج نے روس کے تعاون سے غوطہ پر شدید بمباری کی ہے جس سے اب تک 654 مسلمان بھائی جان بحق ہوچکے ہیں جن میں 185بچے اور 109خواتین شامل ہیں۔ ایمنسی انٹرنیشنل نے اسے وار کرائم قراردیا ہے۔ انتہائی دکھ کا مقام ہے کہ عالمی ضمیر خاموش ہے اور عالم اسلام بے ہوش ہے۔ اقوام متحدہ مفلوج ہوچکا ہے۔ مادہ پرستی نے انسانوں کو حیوان بنا دیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق شام کی جنگ میں اب تک چار لاکھ پینسٹھ ہزار مسلمان جان بحق ہوچکے ہیں۔ نصف صدی قبل دنیا کے کسی حصے میں ظلم ہوتا تھا تو عالمی ضمیر بیدار ہوجاتا تھا اور ہر ملک میں لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے تھے۔ سعودی عرب اگر ہوش میں آجائے اور امریکہ کی گرفت سے باہر نکل آئے تو روس اور چین کو اعتماد میں لیکر امریکہ مسلم کش پالیسیوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور عالم اسلام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ غوطہ میں معصوم اور بے گناہ خون پر ایٹمی ریاست پاکستان کی خاموشی اذیت ناک ہے۔ افسوس صد افسوس سیاسی اور مذہبی جماعتیں شامی بھائیوں کے قتل عام پر احتجاجی مظاہرہ کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔
آئین کے مطابق سینٹ کے انتخابات وقت پر ہوچکے۔ جو لوگ یہ افواہیں پھیلاتے تھے کہ سینٹ کے انتخابات سے پہلے جمہوری نظام لپیٹ دیا جائیگا اور ریاست کے مقتدر اداروں کی جانب انگلیاں اُٹھائی جاتی تھیں ایسے عناصر کم از کم ندامت کا اظہار تو کریں۔ ہر تین سال بعد سینٹ کی منڈی لگتی ہے جس میں ’’سیاسی گھوڑے‘‘ بکتے ہیں۔ کرپٹ سیاسی و جمہوری نظام عالمی سامراج اور کرپٹ اشرافیہ کو سوٹ کرتا ہے اس لیے شرمناک تجربات اور مشاہدات کے باوجود ’’اشرافیائی سرمایہ دارانہ جمہوری نظام‘‘ کو تبدیل نہیں کیا جاتا۔ سینٹ کے حالیہ انتخابات کے دوران جس شرمناک طریقے سے ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ ہوئی اور تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین ضمیر فروشی میں ملوث ہوئے اس المناک سیاسی جمہوری ڈرامے کے بعد تو نام نہاد جمہوریت کے حامیوں کو اللہ اور عوام سے توبہ کرلینی چاہیئے۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخواہ کوئی صوبہ ہارس ٹریڈنگ کی لعنت سے نہیں بچ سکا۔ جو سیاسی لیڈر اپنی جماعتوں کو کنٹرول نہیں کرسکتے عوام ان سے پاکستان کو کنٹرول کرنے کی اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔موجودہ سینٹ کروڑ پتی اور ارب پتی افراد کا کلب بن چکی ہے جس میں کروڑوں کسانوں اور محنت کشوں کا ایک بھی نمائندہ نہیں ہے۔ ان حالات میں سینٹ کو عوام کانمائندہ ایوان بالا کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ مفکر اسلام علامہ اقبال نے اپنی شہرہ آفاق نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ 1936‘‘ میں سرمایہ دارانہ مغربی جمہوریت کو بڑی مہارت سے بے نقاب کیا تھا انکی فکر اور فلسفہ آج بھی درست ثابت ہورہا ہے۔ نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تراس میں ہوئے غلامی میں عوام
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خودنگر
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشنی اندرون چنگیز سے تاریک تر
سیاسی جماعتوں کے یہ دعوے درست نہیں ہیں کہ انہوں نے سینٹ کے انتخابات جیت کر کوئی معرکہ مارلیا ہے یا ریفرنڈم جیت لیا ہے۔ سب جانتے ہیں سینٹ کی نشستوں کا فیصلہ سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی قوت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ جماعتوں کی سیاسی مقبولیت کا فیصلہ 2018ء کے انتخابات میں ہوگا جو نگران حکومت کرائے گی۔ ثابت ہوچکا کہ موجودہ جمہوریت میں ووٹ نہیں نوٹ کی اہمیت ہے اور ووٹ کی عزت کی بات عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے کی جاتی ہے۔ سیاسی جمہوری نظام کو صاف اور شفاف بنانے کے سلسلے میں سیاسی لیڈروں نے نااہلی اور بدنیتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب سینٹ کے انتخابات کے بعد سپریم کورت سے ہارس ٹریڈنگ کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ سیاستدان سیاسی مسائل خود حل کرنے کی بجائے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہیں اور جب سپریم کورٹ آئین کے مطابق فیصلہ سناتی ہے تو اسے سازش اور انتقام قرار دیا جاتا ہے۔ حالات کی صدا بتارہی ہے کہ یکساں کڑے اور شفاف احتساب کا وقت آن پہنچا ہے۔ اب قومی لٹیرے اپنے انجام کو پہنچیں گے اور آخری فتح آئین پاکستان اور ریاست کی ہوگی۔ الیکشن کمشن کو بھی اب ہر قسم کے دبائو سے باہر نکلنا ہوگا۔ سینٹ کے اُمیدوار کی دوہری شہریت کا جائزہ لینا الیکشن کمشن کا فرض تھا افسوس اس نے یہ ذمے داری بھی سپریم کورٹ پر ڈال دی۔ مسلم لیگ (ن) سینٹ کی اکثریتی جماعت بن چکی ہے۔ اسکی وفاق اور پنجاب میں حکومت ہے لہذا وہ آزاد اراکین کے ووٹ حاصل کرکے اپنا چیئرمین سینٹ منتخب کرانے کی پوزیشن میں ہے۔ آصف زرداری چیئرمین سینٹ کے منصب کیلئے سردھڑکی بازی لگارہے ہیں۔ آصف زرداری اور میاں نواز شریف ’’مک مکا‘‘ کر کے سرپرائز بھی دے سکتے ہیں۔ پارلیمانی نظام میں چیک اینڈ بیلنس قومی عوامی اور ریاستی مفاد کیلئے بڑا اہم ہوتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) اپنا چیئرمین سینٹ منتخب کرانے کے بعد بھی آئینی ترمیم کیلئے دوتہائی اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی۔ اس کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں دوتہائی اکثریت حاصل کرکے اپنے ’’پلان‘‘ کیمطابق آئینی ترامیم کراسکے۔ نئے انتخابات تک ابھی بہت سے نشیب وفراز اور مقامات آہ و فغان آنے ہیں۔ سینٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کا آسان حل یہ ہے کہ جس طرح متناسب نمائندگی کے اُصول پر خواتین کی نشستیں مختص کی جاتی ہیں اسی اُصول پر سینٹ کی نشستوں کا فیصلہ کرلیا جائے۔ اس اُصول پر عمل کرنے سے انتخابات کی ضرورت نہیں پڑیگی اور ہر پارلیمانی جماعت کو اسکے ووٹوں کے تناسب سے نشستیں مل جائیں گی۔