وزیراعلیٰ پنجاب نے ہندو برادری سے متعلق بیان پر صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان سے استعفیٰ لے لیا اور انکی جگہ صمصام بخاری کو پنجاب کا نیا وزیر اطلاعات تعینات کیا گیا ہے۔ صمصام بخاری نے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا۔
اس وقت پاکستان حالت جنگ میں ہے‘ جبکہ حکومت پاکستان کی جانب سے بھارت کی ہر جارحیت پر امن کا پیغام دیا جارہا ہے جس کے کردار کی پوری دنیا معترف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا ہر وزیر ‘ مشیر بیان بازی میں احتیاط سے کام لے رہا ہے تاکہ پاکستان پر کسی قسم کا کوئی حرف نہ آئے۔ ایسے حالات میں صوبائی وزیر اطلاعات فیاض چوہان کی جانب سے ہندو برادری کے بارے میں ایسے بیانات کا آنا افسوسناک امر ہے۔ قومی اسمبلی کے اقلیتی رکن ڈاکٹر روشن اور کھیل داس کوہستانی نے فیاض الحسن چوہان کیخلاف قرارداد میں وزارت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جس کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں عہدے سے مستعفی کردیا گیا۔ فیاض چوہان نے جس بھی تناظر میں یہ بیان دیا‘ وہ اس منصب کا تقاضا نہیں تھا۔ گزشتہ دنوں انہوں نے اداکارہ نرگس کے بارے میں بھی ایک پریس کانفرنس میں بیان دیا تھا جس پر انہیں شوبز کی جانب سے کافی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بہرحال وہ جس عہدہ پر فائز تھے‘ انہیں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا۔ بے شک انہوں نے اپنے بیان پر بعد میں ہندو برادری سے معذرت کرلی لیکن ان حالات میں اس عہدے پر فائز وزیر کو مکمل احتیاط برتنی چاہیے تھی جس سے اقلیتی افراد بالخصوص ہندو برادری کی دل آزاری ہوسکتی ہے۔ فیاض الحسن چوہان کی جگہ صمصام بخاری کو پنجاب کا وزیراطلاعات مقرر کردیا گیا ہے جو ایک اچھا اقدام ہے۔ وہ ایک سینئر اور سنجیدہ سیاست دان ہیں۔ موجودہ حالات میں ایک سینئر سیاست دان اور پارلیمنٹیرین ہونے کے ناطے وہ اس عہدے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بہتر کردار ادا کرسکتے ہیںجو اس منصب اور آج کے حالات کا تقاضا بھی ہے۔