اپوزیشن عمران خان کو سلیکٹڈپرائم منسٹر سے زیادہ اہمیت دینے کے لئے تیار نظرنہیں

نوازرضا
پارلیمنٹ میں بھارتی جارحیت کے خلاف حکومت اور اپوزیشن کا ایک ہو جانا ہماری قومی سیاسی تاریخ کا ایک ’’شاندار‘‘ باب ہے لیکن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اور پارلیمانی قائدین کو پاک بھارت کشیدگی سے پیدا ہونے والی صورتحال پر دی جانے والی بریفنگ میں’’ حکومتی طرز عمل ‘‘نے حکومت اپوزیشن تعلقات بارے میں کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ اگرچہ حکومت اور اپوزیشن کو ایک صفحہ پر لا کھڑا کرنے میں ’’پس پردہ قوتوں‘‘ نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے لیکن یہ قوتیں وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن کی اعلیٰ قیادت کو قریب تر کرنے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ قومی اسمبلی کے سپیکر آفس میں چیئرمین مجلس قائمہ برائے قانون و انصاف ریاض فتیانہ کی طرف سے خواجہ سعد رفیق کا جاری ہونے والا پروڈکشن آرڈر روک لیا گیا تو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دھمکی دی کہ’’ اگر خواجہ سعد رفیق کا پروڈکشن آرڈر جاری نہ کیا گیا تو پھر حکومت کو قومی اسمبلی کے اجلاس کی کاروائی نہیں چلانے دی جائے گی ‘‘سپیکر نے پیر کی صبح کو بادل نخواستہ خواجہ سعد رفیق کا پروڈکشن آرڈر جاری کرکے شام کو ان کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں حاضری کو یقینی بنا دیا۔ وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا نے اپنے قائد عمران خان کی مدح سرائی میں جب تمام حدود پھلانگ لیں تو پارلیمنٹ نے ان کا’’ ناطقہ‘‘ بند کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی طرح سابق صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے ہندوئوں کے خلاف بیان دے کر پارلیمنٹ میں اقلیتی ارکان کو احتجاج کرنے پر مجبور کر دیا پچھلے دو روز سے قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر اپوزیشن رہنمائوں کو فیصل واوڈا کو ان کے قابل اعتراض ریمارکس پر معافی دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سربراہوں کو فیصل واڈا کے متنازعہ بیان کے باعث معمول کی کارروائی چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل وواڈا کو اپنے بیان کی وضاحت کیلئے منگل کو طلب کیا لیکن مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے کے سخت طرز عمل نے ان کو ایوان میں بات کرنے کا موقع نہ دیا ۔مولانا عبدالشکور نے کہا کہ’’ ایوان کے ایک معزز رکن اور وزیرکا بیان انتہائی متنازعہ اور آئین کے خلاف ہے لہذا متعلقہ وزیر کے خلاف کارروائی کی جائے‘‘ ۔ مولانا عصمت اللہ نے کہا کہ اگر مذکورہ وزیر نے دانستہ طور پر یہ کہا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں، اگر نادانستہ طور پر کہا ہے کہ وہ معافی مانگ کر اپنے ایمان کی تجدید کریں۔ساڑھے تین گھنٹوں کی تاخیر سے شروع ہونے والا اجلاس صرف پانچ منٹ کی کارروائی کے بعد ختم کر دیا گیا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور متحدہ مجلس عمل وفاقی وزیر آبی وسائل اور پنجاب کے مستعفی وزیر اطلاعات کے متنازعہ بیانات پر قومی اسمبلی میں قرار داد لانے پر مصر ہیں جس پر حکومت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اوروزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد ایوان میں بلاول بھٹو زرداری کے پاس آئے اور ان سے مدد کی درخواست کی تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے کے سخت موقف کی وجہ سے بلاول بھٹو کوئی مدد نہ کر سکے بعد ازاں وہ بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے سے ناراض ہو گئے اور ان کے ترجمان مصطفیٰ کھو کھر نے سیاسی مخالف کے خلاف مذہبی جذبات بھڑکانے پر بیان داغ دیامتحدہ مجلس عمل وزیر کی برطرفی کا مطالبہ کررہی ہے۔ سینیٹ کے اجلاس میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدر ی نے حکومت کے خلاف ’’سٹروک ‘‘ کھیلا اور کہا کہ’’ جناب چئیرمین کوئی رکن اٹھ کر یہ کہہ دے کہ اوپر اللہ اور نیچے عمران والی بات درست ہے تو میں اپنا خطاب ختم کر دوں گا ۔لیکن ایوان سے کوئی رکن نہ اٹھا۔پارلیمانی قائدین کو قومی سلامتی کے بارے میں دی جانے والی بریفنگ میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ آصف علی زرداری اپنی تمام مصروفیات ترک کر کے شریک ہوئے جبکہ پاک فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ نے بریفنگ دی لیکن اس اہم بریفنگ میں وزیراعظم عمران خان کی عدم شرکت نے قومی مفاہمت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیئے۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے پارلیمنٹ میں برملا اس بات کا گلہ کیا کہ اگر عمران خان نے اجلاس میں نہیں آنا تھا تو انھیں بھی شرکت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی پہلی نشست میں وزیراعظم عمران خان بڑے’’ طمطراق‘‘ سے ایوان میں آئے اور خطاب بھی کیا لیکن انھوں نے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے روایتی سلام دعا کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی اور ان سے سلام دعا کئے بغیر یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ ’’چوروں ‘‘ ڈاکوئوں‘‘ سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ وزیراعظم نے اگلے روز بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ان کی عدم موجودگی میں پارلیمنٹ نے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں کے دستخطوں پر مشتمل مشترکہ قرار داد منظور کر لی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن جو عمران خان کو ’’سلیکٹڈ پرائم منسٹر‘‘ سے زیادہ اہمیت دینے کے لئے تیار نظر نہیں آتی تھی وہ قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی وجہ سے اب ان کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ پاکستان میں اپوزیشن نے جس طرح کا تعاون حکومت کو دیا ہے، وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو دستیاب نہیں۔ انھیں فی الفور آل پارٹیز کانفرنس بلا کر اپوزیشن کا اعتماد حاصل کرنا چاہیے۔ جس اے پی سی میں میاں شہباز شریف ، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو زرداری، اسفند یار ولی، حاصل بزنجو اور سراج الحق بیٹھے ہوں گے وہاں عمران خان کا قد کاٹھ بڑھے گا۔

ای پیپر دی نیشن