حکومت پاکستان نے بھارتی جارحیت کے خلاف قومی اتفاق رائے کو آگے بڑھانے کا اعلان کردیا، کالعدم تنظیموں سے متعلق قومی حکمت عملی تمام چیدہ چیدہ پارلیمانی جماعتوں کے اتفاق رائے سے مرتب کی جائے گی، سابق وزیراعظم نواز شریف کو پیشکش کردی گئی ہے کہ وہ بیرون ملک سے ڈاکٹر کو پاکستان بلواسکتے ہیں، بھارتی موقف عالمی سطح پر ہر موقع پر غلط ثابت ہوا ہے، پاکستان کے نکتہ نظر کو ہر سطح پر پذیرائی مل رہی ہے ، ایسا قومی اتفاق رائے کے نتیجہ میں ہوا ہے، بھارتی عزائم کیخلاف قومی یکجہتی کی فضا کو برقراررکھنے کیلئے حکومت ہرممکن اقدام کرے گی، پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے کیخلاف استعمال نہ ہونے کی موثر پالیسی پر قائم ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے جمعرات کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے کیا . کابینہ کا اجلاس وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں ہوا۔ بھارتی جارحیت کے نتیجے میں پیدا شدہ صورتحال میں قومی اتفاق رائے اور یکجہتی پر کابینہ نے اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ اس حوالے سے اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کو مبارکباد دی گئی ہے۔ کابینہ نے ایئر بلیو کے لائسنس کی منظوری دیدی ہے . اجلاس میں وزیراعظم نے واضح کیا کہ کسی اور پارٹی کی حکومت ہوتی اور تحریک انصاف کے کسی شخص کا اس طرح کا معاملہ ہوتا تو کیا یہی رویہ اختیار کیاجاتا۔ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہاکہ وزیراعظم نے اہم معاملات پر ہدایات جاری کی ہیں ,اسی طرح سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے علاج کے حوالے سے بھی ہدایت جاری کی گئی ہیں . کابینہ نے واضح کیا ہے کہ نواز شریف اور زرداری سے ذاتی لڑائی نہیں ہے ,جو کرپشن کے مقدمات ان پر ہیں یہ تحریک انصاف کے دورحکومت میں نہیں بنائے گئے بلکہ یہ پہلے سے بنائے گئے مقدمات ہیں ۔ وزیر اطلاعات نے کہاکہ نیب میں ہمارے لگائے ہوئے لوگ نہیں ہیں بلکہ یا تو یہ لوگ مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی کے دور میں لگائے گئے، دونوں جماعتوں نے مل کر یہ لوگ لگائے, یہ نہیں ہوسکتا کہ کرپشن میں گرفتار لوگوں کو چھوڑ دیں۔ پارلیمانی جماعتوں یا پارلیمانی طاقت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی کا احتساب نہ ہو ایسا نہیں ہوسکتا ، پنجاب حکومت کو وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ نواز شریف جس قسم کا علاج اورڈاکٹر چاہتے ہیں مہیا کیا جائے اور کوئی شائبہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی انتقامی کارروائی ہورہی ہے۔ ہم انتقامی رویے پر یقین نہیں رکھتے یہ قانونی معاملات ہیں. اجلاس کے فیصلوں کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ایئر بلیو کے لائسنس کی منظوری دیدی گئی ہے کیونکہ تمام قانونی معاملات مکمل تھے ، میں پوچھناچاہتاہوں کہ اگر یہ معاملات مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے دور میں آتا اور تحریک انصاف کا کوئی شخص ہوتا تو کیا یہی رویہ اختیارکیا جاتا۔ عمران خان بڑے دل کے آدمی ہیں ، کابینہ کے تمام ارکان کی سوچ کے مطابق کام کررہے ہیں. انہوں نے کہاکہ بھارتی جارحیت کیخلاف جو قومی یکجہتی پیدا ہوئی اورپورے پاکستان میں جس اتفاق رائے کی فضا قائم ہوئی اس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں ، چھوٹی چھوٹی باتوں میں اس کو پیچھے نہیں کرسکتے ، قومی سلامتی کے معاملات پر اداروں کے ساتھ اپوزیشن کو بھی ساتھ لیکر چلنا چاہیے ,اسی عزم اعادہ کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ کالعدم تنظیموں پر پابندی اور کارروائی کی حکمت عملی تمام بڑی پارلیمانی جماعتوں کے سربراہوں کی مشاورت سے طے کی جائے گی۔ اس حوالے سے بڑے فیصلے پارلیمانی قائدین کو اعتماد میں لے کرکریں گے۔ 2014ء میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت طے کیا گیا تھا اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے ۔ پہلے بھی ان تنظیموں پر پابندی ہے اور اپنے ملک کے مفاد میں یہ کارروائی ہورہی ہے ۔ 40سالوں کے بعد پہلا موقع ہے کہ پاکستانی موقف کوہر جگہ عالمی پذیرائی مل رہی ہے ، پاکستان کے موقف کو صحیح قرار دیا جارہا ہے اوربھارتی موقف کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارتی جارحیت نے کروڑوں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کودائو پر لگا دیا تھا یہی عالمی سطح پر محسوس کیا جارہا ہے۔ قومی اتفاق رائے کے تحت آگے بڑھیں گے۔ انسانی حقوق کے معاملات پر سات قوانین کو یکساں کرتے ہوئے ایک قانون لایا جارہا ہے۔ کابینہ میں ای سی سی کے فیصلوں کی منظوری دیدی ہے۔ آصف سعید کو سافٹ ویئربورڈ، سید جاوید کو ریونیو آٹو مشن بورڈ میں تقرر کیا گیا ہے، غربت میں کمی اور غریب طبقات کو مہنگائی سے بچانے پروگرام کو حتمی شکل دی جارہی ہے, جلد وزیراعظم اس کا اعلان کرینگے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں واضح کیا کہ کالعدم تنظیموں کے بوجھ کو ریاست پاکستان نہیں اٹھا سکتی، عالمی سطح پر بھی ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں اور خودہمیں ان اقدامات کے حوالے سے مذہبی تنظیموں کا بھی اعتماد حاصل ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ نواز شریف صاحب ثروت ہیں، مالی وسائل رکھتے ہیں وہ اپنے علاج کیلئے باہر سے ڈاکٹر کو بلوا سکتے ہیں، پھر یہ ان کے اپنے سیاسی کیریئر کے خلاف ہے کہ وہ اپنے دور میں ایک ایسا ہسپتال بھی پاکستان میں نہ بنوا سکے جس میں یہاں ان کا علاج ہوسکے۔