او آئی سی کاوفد اور کشمیر میں سات ماہ کا کرفیو

او آئی سی کے نمائندہ خصوصی نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کشمیر میں کرفیو ختم کرے اور پانچ اگست کے اقدامات واپس لے۔ او آئی سی کے نمائندہ نے مظفر آبادا ور چکوٹھی میں کنٹرول لائن کا دورہ کیاا ور بھارت کی طرف سے جنگی خلاف ورزیوں کے نقصانات کا جائزہ لیا۔
او آئی سی کے نمائندہ خصوصی کی پاکستان اور آزاد کشمیر آمد سے یہ اعتراض ختم ہو جاتا ہے کہ اس ادارے نے کشمیر کی زبوں حالی سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے اور ناقدین کو یہ کہنے کا بھی موقع نہیںملے گا کہ پاکستان عالم اسلام سے بھی الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے جب یہ کہا کہ وہ خود کشمیر کاوکیل اور سفیر بنیں گے اور دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں میں خصوصی کشمیر ڈیسک قائم کر دیئے گئے تو اب ان کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ او آئی سی کے نمائندہ خصوصی نے لگی لپٹی رکھے بغیر بھارت پر تنقید کی ہے اور کشمیر میں ا سکے اقدامات پر شدید احتجاج کیا ہے۔
جب میں یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں تو میںنے کیلنڈر پر نگاہ ڈالی ہے۔ کشمیر کو ایک وسیع قید خانے میں تبدیل ہوئے پورے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اس دوران کشمیر میں ہر طرف کرفیو کی کیفیت ہے۔گلیوں کو خاردار تاروں سے بند کر دیا گیا ہے اور بھارتی فوج ہر کونے میںسنگینیں تانے کھڑی ہے جو کسی گھر کا دروازہ کھلنے پر تڑ تڑ گولیاں چلا دیتی ہے۔ کشمیر میں تمام تعلیمی ا دارے بند ہیں ۔ مسجدوں پر تالے پڑے ہیں اور پانچ اگست کے بعد سے کوئی ا یک جمعہ بھی سری نگر کی جامع مسجد میں ادا نہیں کرنے دیا گیا۔ وادی کے لوگوں کا بیرونی دنیا سے رابطہ کاٹنے کے لئے لینڈ لائین فون بند پڑے ہیں، موبائل سروس بھی معطل ہے اور انٹر نیٹ، وائی فائی کی سہولت بھی واپس لے لی گئی ہے تاکہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کی کوئی جھلک دنیا تک نہ پہنچنے پائے اور کشمیریوں کی چیخیں دبا دی جائیں۔ وادی کشمیر میں بیرونی دنیا کے نمائندوں کا داخلہ تو بند ہے ہی۔ بھارتی راہنمائوں کو بھی وادی میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ کشمیریوں کی حریت پسند قیادت تو پہلے ہی سے قیدو بند کا شکار ہے اب سات ماہ سے بھارت نواز کشمیری قیادت کو بھی قید کر دیا گیا ہے اورا ن کی آواز بھی باہر نہیں آ سکتی۔ کشمیر کے لئے بھارتی آئین کی دفعہ تین سو ستر کو حذف کر دیا گیا ہے جو اسے خصوصی حیثیت دیتی تھی اور آئین میں سے آرٹیکل پینتیس اے بھی نکال دیا گیا ہے جو غیر ریاستی باشندوں کو کشمیر میں زمین خریدنے پر پابندی عائد کرتا تھا، اب کشمیر میں ہر کوئی جائیداد خرید سکتا ہے اور یہاں وہی کھیل شروع ہو گیا ہے جو اعلان بالفور کے بعد سے فلسطین میں دیکھنے میں آیا کہ یہودیوںنے ساری دنیا سے فلسطین کا رخ کیاا ور مقامی افراد کی غربت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی زمینیں اور ان کے مکانات دھڑا دھڑ خرید کر اپنی اکثریت بنا لی اور فلسطینیوں کو بتدریج ا س علاقے سے بے دخل کر کے ہمسایہ ممالک میں مہاجر کیمپوں کی طرف دھکیل دیا گیا۔ مصیبت یہ ہے کہ یہ عمل اب نہ صرف کشمیر میں شروع ہو گیا ہے بلکہ شہریت کے قوانین کی رو سے غیر ہندو باشندوں کو ملک سے نکالنے کی تیاریاں شروع ہیں اور امریکی صدر ٹرمپ کی ا ٓمد کے موقع پر چار روز تک مسلمانوں کے خون سے کھل کر ہولی کھیلی گئی، ان کی دکانیں لوٹی گئیں، انہیں نذر آتش کیا گیا، ان کے گھر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیئے گئے اور مسجدوں کو راکھ سیاہ کر دیا گیا۔ بھارت میں جو کوئی اس ظلم پر آواز بلند کرتا ہے، اسے کہا جاتا ہے کہ جائو پاکستان کی طرف کیونکہ بھارت کی تقسیم د وقومی نظریئے پر ہوئی تھی، اس لئے بھارت میں صرف ہندو رہ سکتے ہیں اور ہندوتوا کا راج چل سکتا ہے۔
یہ ہے وہ صورت حال جو پاکستان کے لئے سخت تشویس کا باعث ہے اور جس کی طرف وزیر اعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی کی تقریر میں اقوام عالم کی توجہ مبذول کر وائی تھی۔
اس چیلنج سے نبٹنے کے لئے پاکستان کے پاس محدود امکانات ہیں۔ طاقت سے مسئلہ حل کرانے کی صورت میں خدشہ ہے کہ دو ایٹمی ملکوں کی جنگ وسیع پیمانے پر تباہی کا باعث بنے گی۔ بھارت اسی وجہ سے شیر ہے اور پے در پے اندرونی طور پر بے دریغ طاقت کا ستعمال کرر ہا ہے۔ پاکستان کے سامنے ایک راستہ ضرور کھلا ہے ۔ پاکستان ایک وسیع تر اخلاقی سیاسی اور سفارتی مہم کے ذریعے بھارت کے جبر اور کشمیریوں کے حقو ق کی پامالی کی طرف اقوام متحدہ ا ور دیگر اداروں کے ذریعے بھارت کے جبر کو رکوا سکتا ہے۔ ا سکے لئے پاکستان نے کو ئی کوشش نہیں چھوڑی اورا س کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔ سیکرٹری جنرل ا قوام متحدہ نے پاکستان کے حالیہ دورے میں کشمیر کے مسئلے کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے پر زور دیا۔ عالمی حقوق کی تنظیمیں بھی بھارتی اقدامات کی مذمت کرر ہی ہیں۔ ٹرمپ بھی باربار کہہ رہے ہیں کہ وہ کشمیر کامسئلہ حل کرانے کے لئے ثالثی کے لئے تیار ہیں گویا وہ مان رہے ہیں کہ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے اور وہ بھارت کے اس نظریئے کو قبول نہیں کر رہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور کسی دوسری طاقت کو اس میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ٹرمپ نے تو بھارت کی راج دھانی میں کھڑے ہو کر عالمی میڈیا کے سامنے کشمیر کا مسئلہ حل کرانے پر زور دیا تاکہ خطے میں امن آ سکے اور دنیا کو اس علاقے میں تجارت اور سرمایہ کاری سے ہچکچاہٹ محسوس نہ ہو۔
پاکستان نے اب تک بھارت کی اشتعال انگیزی کے سامنے صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کیا مگر جب جب بھارت نے سرجیکل اسٹرائیک کا ڈھونگ رچا کر اپنے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی تو پاکستان نے منہ توڑ جواب دیا۔ اس سے بھارت کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ طاقت سے حل نہیںکر سکتا۔ آج اگر امریکہ ا ور نیٹو جیسے ملکوں کو افغان امن کے لئے مذاکرات کرنے پڑے ہیں تو بھارت کے سامنے بھی یہی راستہ کھلا ہے اور سلامتی کونسل کی متعدد قراردادیں اس مسئلے کی راہیں روشن کرتی ہیں ۔ کشمیری اپنے مستقبل سے ہر گز مایوس نہیں، وہ پاکستان کی سیاسی، سفارتی ا ور اخلاقی حمایت کے لئے بھی شکر گزار ہیں اور انہیں توقع ہے کہ یہ راستہ ان کے بہتر مستقبل کی منزل سے ہمکنار کر سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن