کیا ہم جمہوری معاشرے میں ہیں، لوگ مررہے، بانسری بج رہی، ابا کی زمین سمجھ کر عمارتیں بنائیں، کسی کو نہیں چھوڑیں گے: چیف جسٹس

کراچی (وقائع نگار) چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں1995 ء کی سرکلر ریلوے بحال کرنے، سی پیک منصوبہ بھی جاری رکھنے اور سرکلر ریلوے کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹیں ختم کرنے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ایڈووکیٹ جنرل ، سرکلر ریلوے پر پیش رفت سے آگاہ کریں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سرکلر ریلوے سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف اختیار کیا کہ بتانا چاہتا ہوں کہ پیش رفت ہوئی ہے۔ کراچی ماس ٹرانزٹ پلان ترتیب دیا گیا ہے۔ گرین لائن، اورنج لائن مکمل کی جا چکی ہیں۔ ورلڈ بنک اور دیگر بنکوں کی مدد سے دیگر منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔ چیف جسٹس نے کراچی ماس ٹرانزٹ کے نقشے پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا اور کہا کہ اس نقشے میں تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ جس طرح کا نقشہ ہے اسی طرح کا کام ہے۔ کوئی کام نہیں ہورہا۔ جو کام کیا وہ بھی پیسے کی خواہش کی وجہ سے کیا۔ یہ کوئی منصوبہ نہیں کراچی کے لیے۔ آپ کیوں نہیں سمجھ رہے کراچی کو کس طرح کے کام کی ضرورت ہے۔ کراچی کو مربوط منصوبے کی ضرورت ہے۔ سلمان طالب الدین نے موقف دیا کہ کراچی ماس ٹرانزٹ سے شہر میں ٹرانسپورٹ مسائل حل ہو جائیں گے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے بتائیں گرین لائن کب شروع کی۔ حکام نے بتایا کہ 3 سال پہلے شروع کی۔ چیف جسٹس نے کہا 3 سال کس بات کے لگے۔ 3 سال میں تو پورے ایشیا کے منصوبے مکمل ہو جائیں۔ یہ مہینوں کا کام ہے، کیا رکاوٹ ہے جو کام وقت پر پورا نہیں ہوتا۔ حکام نے کہا کہ اگلے سال گرین لائن مکمل ہو جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگلے سال کیوں، اس سال کیوں نہیں۔ ابھی چلے جائیں کوئی کام نہیں ہو رہا۔ ٹھیکیدار کو پیسہ اس وقت دیتے ہیں جب آپ کا کمیشن ملتا ہے۔ ابھی جائیں ناظم آباد کوئی کام نہیں ہورہا۔ سب سمجھتے ہیں آپ کے معاملات ٹھیک نہیں۔ لوگوں کو خواب دکھاتے ہیں، دھول مٹی ہے سب جگہ۔ کوئی انسانیت والا عمل ہے، ملک سے محبت ہے آپ لوگوں کو۔ آپ بین اور بانسری بجا رہے ہیں، لوگ مر رہے ہیں۔ ابھی تو مرنے کی گنتی شروع ہوئی ہے۔ آگے دیکھیں خدانخواستہ کراچی میں کیا ہوتا ہے۔ خدانخواستہ کراچی پورا ہی نہ گرجائے۔ جب تک اوپر سے ڈنڈا نہ ہو کوئی کام نہیں کرتا۔ جس طرح کراچی میں تعمیرات ہوئیں بہت بڑا رسک بنا دیا گیا۔ آپ لوگوں کو کراچی کا کچھ پتہ ہی نہیں۔ کیماڑی کا پل گرنے والا ہے، کچھ احساس ہے۔ اگر کیماڑی پل گر گیا تو کراچی سے تعلق ہی ختم ہو جائے گا۔ سلمان طالب الدین صاحب آپ ایماندار آدمی ہیں۔ مگر آپ ان لوگوں سے کام نہیں کراسکتے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہا کہ یہ پورا گینگ کام کر رہا ہیں، کام صرف پیپرز میں ہے۔ شہید ملت روڈ، کشمیر روڈ، ناظم آباد کا کیا حال کر دیا۔ یونیورسٹی روڈ تباہ کر دیا۔ خوبصورت ترین روڈ تباہ کر دیے۔ ٹرانسپورٹ نہیں اسی لیے لاکھوں موٹر سائیکل ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل صاحب، معذرت کے ساتھ کوئی کام نہیں ہو رہا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے اگر گرین، اورنج پر سڑک تیار ہے تو پھر بسیں چلا دیں۔ آپ شام کو گاڑی میں جائیں دیکھیں کیا حال ہے ناظم آباد کا۔ چیف جسٹس نے کہا 1955 والی بسیں کراچی میں چل رہی ہیں۔ سارے پاکستان کی کچرا بسیں کراچی میں چل رہی ہیں۔ جنگ اول کے زمانے کی بسیں کراچی میں چلا رہے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف دیا کہ دو سال میں کام کر کے دکھائیں گے۔ تسلیم کرتا ہوں، صوبائی و وفاقی افسروں کے اپنے اپنے ایجنڈا ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ان اداروں میں صفایا کرنا ہوگا یہ ایسے ٹھیک نہیں ہوں گے۔ ریونیو ڈیپارٹمنٹ بہت بڑا چور ڈیپارٹمنٹ ہے۔ ایس بی سی اے، کے ایم سی، واٹر بورڈ کس کس کی بات کریں۔ سب ادارے ہی چور ہیں کوئی کام نہیں کر رہے۔کل بلڈنگ گری 14 لوگ مرے، سب آرام سے سوئے۔ کسی پر کوئی جوں نہیں رینگی۔ آپ سمجھتے ہیں کہ جوں رینگنا کسے کہتے ہیں۔ کل جو لوگ مرے، ان کا کون ذمہ دار ہے۔ کسی کو احساس بھی ہے لوگ مر رہے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں واقعہ ہوا تو وزیراعظم تک کو صدمہ تھا۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم ایک ہفتہ تک نہیں سوئی تھی۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے چھوٹے چھوٹے ہلاٹس پر اونچی عمارتیں بنا دیتے ہیں۔ سلمان طالب الدین نے موقف دیا کہ ہم نے کرپٹ افسروں کیخلاف کارروائی کی ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے یہ سب دکھاوے کیلئے کارروائی کی گئی ہے۔ ہم نے کہا تھا غیر قانونی تعمیرات کا مکمل ریکارڈ دیں اس کا کیا ہوا؟۔ ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ وہ رپورٹ تیار کرلی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اٹارنی جنرل صاحب آپ بتائیں وفاقی حکومت کیا کر رہی ہے۔ اٹارنی جنرل نے موقف دیا کہ سی پیک کے تحت منصوبوں پر کام جاری ہے۔ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ کچھ وقت دے دیا جائے۔ ایک منصوبہ مکمل ہوا تو باقی بھی ہو جائیں گے۔ میری درخواست ہے کہ ہمیں کچھ وقت دیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے چیف سیکرٹری کہاں ہیں، چیف سیکرٹری صاحب بہت اچھے ایماندار آدمی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ سبھی اچھے افسر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بتائیں جن کو ہٹایا گیا کیا وہ غیر قانونی قابضین نہیں تھے۔ یہ تو حکومت کا کام ہے کہ متاثرین کو کیسے آباد کرنا ہے۔ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ صرف غریب لوگوں کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کراچی میں 90 فیصد لوگ غریب ہیں۔ عدالت نے تو سب کیخلاف بلا امتیاز کارروائی کا حکم دے رکھا ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ یہ لوگ کتنے ظالم لوگ ہیں۔ لوگوں نے اپنے ابا کی زمین سمجھ کر عمارتیں بنا دیں۔ جن لوگوں نے عمارتیں بنائیں، ان سے پیسے کون لے گا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے ایک 10 منزلہ عمارت اور برابر میں جھگی ہو تو پہلے کیسے ختم کریں۔ چیف جسٹس نے کہا آپ تسلی رکھیں کوئی نہیں بچے گا، سب کو گرائیں گے۔ کمشنر کراچی سن لیں بلا امتیاز کارروائی کریں۔ کمشنر کراچی نے کہا کہ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہو رہا، پٹرول پمپس، پلازے سب گرا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ریلوے پر ہائوسنگ سوسائٹیز کا کیا بنا۔ ہم ایک جمہوری معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ کارروائی ہوگی تو سب کیخلاف ہوگی۔ سلمان طالب الدین نے موقف دیا کہ ریلوے ملازمین کی اپنی ہاوسنگ سوسائٹیز ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے کو کس نے اختیار دیا کہ وہ اپنے لیے ہاوسنگ سوسائٹیز بنائے۔ گرین لائن ہو یا دیگر منصوبے ان کے لیے انڈر پاسز اور فلائی اوورز بنائے جائیں۔ گرین، اورنج لائن منصوبے بھی جاری رکھے جائیں۔ سرکلرے ریلوے کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ فوری اور دیرپا دونوں منصوبوں پر کام جاری رکھا جائے۔ جہاں زمین انڈر پاسز یا فلائی اوورز بنانا پڑیں ایک سال میں مکمل کریں۔ تجاوزات، سرکلر ریلوے، غیر قانونی تعمیرات اور دیگر اہم درخواستوں کی سماعت 26 مارچ کو ہوگی۔علاوہ ازیںسپریم کورٹ نے ہل پارک سے متصل گھروں کے مکینوں کی درخواست پر کمشنر کراچی و دیگر حکام کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہل پارک کی زمین کا احاطہ کرنے اور 26 مارچ تک رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ڈی جی پارک کے پاس سے پیسے نکلے کیا معلوم نہیں۔ ڈی جی پارکس کے پاس اربوں روپے ایسے ہی تو نہیں آئے گھروں کے گھر بیچے تو ایسے ہی اربوں روپے بنے سب بہتی گنگا میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں ہل پارک کے دونوں اطراف قبضے نہیں تو کیا ہیں۔ سڑکوں تک پر قبضے ہوچکے پڑھے لکھے لوگوں نے بھی پارک کی زمین خرید ڈالی۔ ہل پارک کا اصل پلان کہاں ہے، کراچی کے بارے میں سب کو ایک جیسی ہی تکلیف ہے۔ پارکس کا ڈی جی تھا نہ جس کے گھر سے اتنا مال نکلا سب اس کا کیا دھرا ہے۔ شہریوں کے بنیادی حقوق کا کیس ہے کسی کی حق تلفی نہیں ہونے دیں گے۔ یہ تو محکموں کا کام ہے وہ دیانتداری سے کام کریں لوگوں نے آسان راستہ نکال لیا کہ بس بغیر کسی تصدیق کے سستی زمین خرید لی جائے۔ سپریم کورٹ نے رائل پارک سے متعلق ناصر حسین لوتھا کی عمارت کی قانونی لیز سے متعلق نظرثئانی اور الاٹیز کی درخواستیں مسترد کردیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ قانونی طور پر زمین منتقل ہوئی یا نہیں۔ ہم بھی اسی شہر میں رہتے ہیں بلڈرز کیا کھیل کھیلتے ہیں بلڈرز پیسے سے پیسے کماتے ہیں ۔ اگر کوئی دبئی کا حکمران ہ تو ہم کیا کریں ہمیں تو قانون دیکھنا ہے ہمیں تو صرف یہ دیکھنا ہے کہ زمین قانونی طور پر منتقل ہوئی یا نہیں۔

ای پیپر دی نیشن