’’ سفیر امن‘‘… فاروق ریاض چودھری

Mar 07, 2020

سید روح الامین....برسرمطلب

اسلام سلم سے ہے جسکے معنی اور امن اور سلامتی کے ہیں۔ اسلام امن و سلامتی کا داعی ہے۔ اسلام کا اپنے پیروکاروں کیلئے بھی یہی سبق ہے کہ ’’جب دو بھائی آپس میں لڑ پڑیں تو اُنکے درمیان صلح کرا دیا کرو‘‘ اور وہ کتنے عظیم لوگ ہوتے ہیں۔ جو صرف اپنے معاشرے میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں امن کے بارے سوچتے اور کچھ کر گزرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک عظیم نام فاروق ریاض چودھری کا ہے۔ جو پوری دنیا میں امن کا خواہاں ہے جس کیلئے اس شخص نے اپنی پوری زندگی وقف کر رکھی ہے۔ فاروق ریاض چودھری کا تعلق گجرات شہر سے ہے۔ انکے دادا ریاض احمد چودھری معروف ماہر تعلیم تھے۔ فاروق ریاض چودھری کے والد ممتاز علی چودھری نیشنل کالج آف آرٹس کے تعلیم یافتہ ہیں۔ فاروق ریاض چودھری کو امن کیلئے کام کرتے ہوئے کئی برس ہو گئے ہیں وہ اسکے ذریعے دنیا بھر کے انسانوں کو امن کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے انہوں نے کئی پیدل سفر کئے۔ امن ریلیوں کا انعقاد کیا، امن واکس اور بیرون ملک بھی کئی دورے کئے۔ جب بیرون ملک دوروں کی بات ہوئی تو ’’سفیر امن‘‘ نے تیس 30 سے زائد ممالک کے پاسپورٹ ہمارے سامنے رکھ دیئے انہوں نے بتایا کہ وہ امن مشن کیلئے ان سب ممالک کا دورہ کر چکے ہیں۔ ان سب ممالک کے سفیروں سے ’’سفیر امن‘‘ کے سرٹیفکیٹ بھی انہوں نے ہمیں دکھائے۔ 1997ء میں فاروق ریاض نے گجرات سے اسلام آباد تک تین روزہ پیدل امن واک کی۔ اسکے بعد 1998ء میں ناروے اور یوسنیا کا دورر کیا۔فاروق ریاض کی امن کی کوششوں کے سلسلے میں 1998ء میں حکومت پاکستان نے انہیں ’’امن کا سفیر‘‘ کا خطاب دیا۔ 1998ء میں سپیکر پنجاب اسمبلی اور 1999ء میں ڈپٹی کمشنر گجرات نے میڈل اور اس کے علاوہ کئی این جی اوز نے ایوارڈ دیئے 1999ء میں فاروق ریاض نے ناروے، ڈنمارک، جرمنی، فرانس، اٹلی اور سپین کا سفر کیا اور وہاں کے لوگوں کو امن کا پیغام پہنچایا۔ 2003ء میں انڈیا واٹر مینجمنٹ کانفرنس میں شرکت کر کے اپنا پیغام پہنچایا۔ 2004ء میں انڈیا میں پاکستان، انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان امن و دوستی کو فروغ دینے کیلئے کرکٹ میچ میں شرکت کی۔کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ حالیہ ظلم و ستم بھارت نے جو روا رکھا ہوا ہے۔ ’’سفیر امن‘‘ کا دل اسکے بارے میں کڑھتا ہے۔ ان مظالم کا ذکر کرتے ہوئے اُن کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ صرف اور صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے مگر بھارت کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کے بجائے وہاں ظلم وستم کی داستان رقم کر رہا ہے۔ فاروق ریاض سرامک انجینئر بھی ہیں مگر فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ وہ دوسروں کے کام آنا عبادت گردانتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ
ہیں لوگ وہی اچھے جہاں میں
جو آتے ہیں کام دوسروں کے
فاروق ریاض سبھی سے محبت و پیار کے خواہاں ہیں۔ وہ کسی سے نفرت نہیں کرتے وہ احترام انسانیت کے قائل ہیں۔ ہم نے دیکھا اُنکے پاس کام کرنے والا ملازم اسے بھی فاروق ریاض عزت و احترام کی گاہ سے دیکھتے ہیں۔ اُسے بھی آپ کہہ کر پکارتے ہیں۔ اُن کے دروازے پر صدا لگانے والا درویش بھی فاروق ریاض کے کردار سے متاثر ہوتا ہے۔ اسے وہ محنت و مشقت کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تا کہ اسکی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو۔ لہٰذا وہ درویش کو ساتھ لے جا کر اپنے دوست احباب کی خالی زمینوں پر سبزیاں پھل لگانے کی ترغیب دینے میں وہ اور خوشی محسوس کرتا ہے۔ امن کے علاوہ ان کا محبوب مشغلہ نوادرات جمع کر کے اپنی ثقافت کو محفوظ رکھنا بھی ہے لیکن اسکے بارے بعد میں بات ہو گی۔ بہرحال امن کے داعی فاروق ریاض اس بات کے قائل ہیں کہ …؎
آدم کے کسی روپ کے تحقیر نہ کر
پھرتا ہے زمانے میں خدا بھیس بدل کر
امن کی خاطر پوری دنیا کے حوالے کرنے والا فاروق ریاض سادگی، انکساری کا پیکر ہے۔ اُس کا ضمیر مطمئن ہے۔ قناعت پسند ہے۔ مگر حکومت پاکستان کو ایسے افراد کیلئے بہت کچھ کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہماری حکومتیں فضولیات پر لاکھوں روپے ضائع کر دیتی ہیں۔ مگر قوم کے ایسے عظیم نوجوانوں کے مقاصد کی نہ حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور نہ ہی اُنکی مالی معاونت کرتی ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں آج بھی فاروق ریاض کی کفالت کا واحد سہار ایک فوٹو سٹیٹ مشین ہے۔ جس کی کمائی سے وہ اپنی تین معصوم بیٹوں اور اہل خانہ کی کفالت کرتا ہے۔ اگر کبھی مشین خراب ہو جائے تو کئی دنوں فاروق ریاض اُسے ٹھیک کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ اسکے باوجود وہ خودداری پر آنچ نہیں آنے دیتا ۔ شاعر نے شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے کہا تھا کہ…؎
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انساں نکلتے ہیں

مزیدخبریں