وجوہ کچھ ہوں مگر یہ حقیقت ایک المیہ ہے کہ سیکولرزم کے منشور پر آل انڈیا ہندو کانگریس نے ایک طویل جدوجہد کے بعد تقسیم ہندوستان کے نتیجے میں بھارت کے نام سے جو آزاد اور خودمختار ملک حاصل کیا گیا تھا، بھارت کی موجودہ برسرِ اقتدار جماعت بھارتی جنتا پارٹی نے قیام بھارت کے بنیادی منشور کو نہ صرف بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا ہے بلکہ بھارت کے بانیوں کے نظریات اور ان کی اس طویل جدوجہد پر بھی خط تنسیخ پھیر دیا ہے جو انہوں نے پون صدی پر محیط عرصے کے دوران فرنگی سامراج کے ہندوستان پر تسلط کے خلاف جاری و ساری رکھی اور عرصے کے دوران ہمیں بیسویں صدی کے اوائل سے لے کر وسط تک مشرق سے اٹھنے والے سرخ انقلاب کی لہروں نے دنیا کے دیگر خطوں کی طرح برصغیر پاک و ہند کے روشن دماغ بعض مسلمان حلقوں کو بھی متاثر کر دیا تھا اور وہ آل انڈیاکانگریس کی سیکولرزم کے نظام حکومت کا ذکر کرنے والی قیادت سے متاثر ہوئے اور انہوں نے بھی تحریک آزادی کے نام سے کی جانے والی جدوجہد میں آل انڈیا کانگریس کے پرچم تلے حصہ لیا تھا۔ اگرچہ تقسیم برصغیر کے موقع پر حکمران فرنگی سامراج نے نو آزادی مملکتوں بھارت اور پاکستان کے مابین ممکنہ خوشگوار تعلقات میں خطرناک رخنہ اندازی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کو مسلم اکثریت کی ریاست جموں و کشمیر پر غاصبانہ اقدام اٹھانے کا راستہ دکھا دیا جس کے نتیجے میں کشمیری مسلمانوں میں بھارتی غاصبانہ تسلط کے خلاف شعلہ جوالہ ، بننا لازمی امر تھا۔ ایسا ہو کر رہا اس کے نتیجے میں بھارتی حکومت کا کشمیریوں پر ناروا ظلم و تشدد کے دور کا آغاز تقسیم برصغیر کے بعد ہی سے شروع ہو گیا تھا مگر قریباً ستر برسوں کے دوران بھارت کی کسی برسرِ اقتدار قیادت کو بھارت کے سیکولر تشخص کو ملیامیٹ کرکے اس کے حقیقی بانیوں کی روحوں اور عالم ارواح میں تڑپانے کی ہمت نہ ہوئی۔ آل انڈیا کانگریس کے پرچم تلے ہندوستان کی آزادی کی خاطر حکمران فرنگی سامراج کے عہد میں پابند سلاسل رہنے والوں میں جہاں سیکولرزم کو جزو ایمان سمجھنے والوں کا تذکرہ کیا جائے تو اس میں ہندوئوں سمیت اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں اور سکھوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ بلاشبہ اس وقت بھی جو چند کٹر اور بنیاد پرست ہندو سیاسی رہنما تھے ، وہ اس قابل اور اس حیثیت کے حامل نہ تھے کہ اپنے قدآور اور سرکردہ لیڈروں کے نظریہ سیکولرزم کی مخالفت کر سکتے۔ اگرچہ بعض ایسے ہی ہندو عناصر کی نیتوں کو بھانپتے ہوئے آل انڈیا کانگریس سے بڑے بڑے قابلِ ذکر اور صفِ اول کے مسلمان رہنمائوں نے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر گئے تھے۔ مگر یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آل انڈیا کانگریس کے اس وقت کے بانیوں اور حصول آزادی کے رہنمائوں نے خالصتاً ہندو حکومت کی خاطر جیلوں کی ہوا نہیں کھائی تھی نہ صرف بھرت رکھے تھے اور آزادی ہند کے بعد اگر بھارت میں سیکولرزم نظام سے یکسر انحراف کا اظہار کرتے تو بھارت کی وفاقی کابینہ میں اپنے دور کے نامور مسلم سیاستدانوں نے شمولیت اختیار نہ کی ہوتی اگر صرف کٹر اور بنیاد پرستی کے نظریات کی بنیاد پر آل انڈیا کانگریس کی طرف سے بھارت کے قیام کا مطالبہ ہوتا تو بھارت کا قیام کسی صورت ممکن نہ ہوتا۔ یہ نکتہ اکیسویں صدی میں تہذیب یافتہ اقوام اور انسانی حقوق کی علمبردار آزاد و خودمختاری کا دعویٰ کرنے والے ممالک اور اس کی برسرِ اقتدار قیادتوں کے لئے لمحۂ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس تہذیب یافتہ اور مہذب دور میں بھی بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی وزیراعظم نریندر مودی کے انسانیت سوزاور بالخصوص مسلم کش، اسلام دشمن اور نسلی تعصب سے بھارت نظریہ کی تکمیل کے لیے جہاں بھارت کے تشخص کو تہس نہس کر رہا ہے بلکہ ہزاروں برسوں سے اسی خطے میں بسنے والے محب وطن کروڑوں مسلمانوں کے لئے بھارت کی اس زمین کو تنگ کر رہا ہے جس سرزمین پر اس قوم کے آبائو اجداد نے یہاں کے بسنے والے ہندوئوں سمیت تمام دیگر اقوام کے لوگوں کے مابین عدل و انصاف پر مبنی نظام حیات اور انسانی حقوق کے علاوہ تمام شعبوں میں مساوات کی ایسی ایسی مثالیں قائم کیں جس کی نظیر کرۂ ارض میں کم کم ہی ملتی ہیں۔ فاشسٹ اور نسل پرست نریندر مودی درحقیقت اپنی مسلم دشمن کارروائیوں سے بھارت کے بانیوں کی اسی جدوجہد کو غلط اور لغو ثابت کرنے کے لیے ایسے عناصر کے ہاتھوں میں کھیلتا محسوس ہونے لگا ہے جو بھارت کے بانیوں کے نظریہ سیکولرزم اور حقوق انسانی کے مخالف ہیں۔ (جاری)
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی؟
Mar 07, 2020