ہنر مند اوورسیز پاکستانیوں کا مقدمہ


22کروڑ آبادی کے حامل مادر وطن کے تقریباََ 90 لاکھ پاکستانی  مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ پاکستانی مشرق وسطیٰ میں رہائش پذیر ہیں۔ ان پاکستانیوں کی بڑی تعداد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں رہتی ہے ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی 30 فیصد تعداد پاکستان کے صرف آٹھ اضلاع کے باشندوں پر مشتمل ہے، اور ان میں سے چھ اضلاع پنجاب، ایک سندھ اور ایک ضلع خیبر پختونخوا کا ہے۔پاکستان کے کل 154 اضلاع میں سے 21 ایسے ہیں جہاں ہر ضلعے سے ایک ہزار سے بھی کم پاکستانی بیرون ملک گئے۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں سے پنجاب سے تقریباً 45 فیصد یعنی 54 لاکھ 60 ہزار987 ، خیبر پختونخوا سے 32 لاکھ 75 ہزار 904، سندھ سے 10 لاکھ 28 ہزار 582، بلوچستان سے ایک لاکھ 16 ہزار617،آزاد کشمیر سے 6 لاکھ 90 ہزار968 جبکہ گلگت بلتستان سے 24 ہزار 223 افراد بیرون ملک گئے ہوئے ہیں۔صوبہ سندھ کے ضلع کراچی سینٹرل سے سب سے زیادہ لوگ بیرون ملک گئے جن کی تعداد پانچ لاکھ 39 ہزار 381 ہے۔پنجاب کا ضلع سیالکوٹ چار لاکھ 76 ہزار 877 افراد کے ساتھ دوسرے، راولپنڈی تین لاکھ 92 ہزار 250 کے ساتھ تیسرے نمبرپر ہے۔ضلع لاہور سے چار لاکھ 6 ہزار 23 ، گوجرانوالہ سے تین لاکھ 72 ہزار 882 اور گجرات سے تین لاکھ 57 ہزار811 افراد بیرون ملک گئے۔خیبرپختونخوا کے ضلع سوات سے بھی تین لاکھ 45 ہزار796 پاکستانیوں نے بیرون ملک رخ کیا۔اپنے پیاروں سے دور سات سمندر پار مقیم پاکستانی اگرچہ حصول روزگار کیلئے وہاں موجود ہیں لیکن یہی پاکستانی وطن عزیز کی معیشت کو خاطر خواہ سہارا بھی دیتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے
 بھیجی جانے والی ترسیلات زر کا حجم 21 ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے جو کہ گذشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں 43 فیصد زائد ہے۔ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے سب سے زیادہ 5 ارب 70 کروڑ ڈالر کی ترسیلات بھیجیں۔ اس طرح اپنے وطن سے دور بیٹھے یہ لوگ پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے حکومت میں آنے کے بعد سے اوور سیزپاکستانیوں کے مسائل کے حل میں خصوصی دلچسپی لی ہے۔وزیر اعظم کی ذاتی دلچسپی اور حکومت پاکستان کی اس ضمن میں کارکردگی سے اکثر تارکین وطن خوش ہیں۔ موجودہ حکومت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے دور میںاوور سیز پاکستانیوں کو ووٹنگ کا بنیادی حق بھی دیا گیا۔
تحریک انصاف حکومت کے سمندر پار مقیم پاکستانی شہریوں کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات قابل تحسین ہیں مگر ان میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ آج کے موضوع کی طرف توجہ  عرصہ دراز سے سعودی عرب میں مقیم ایک دوست نے دلائی ہے جس میں کچھ حقائق اور سفارشات کو ارباب اختیار تک پہنچانا مقصود ہے تاکہ بیرون ملک روزگار کے حصول کیلئے جانے والے نئے افراد پریشانیوں سے بچ سکیں۔  90 لاکھ پاکستانی تارکین وطن کی سب سے بڑی تعداد مشرق وسطیٰ کے دو ممالک  سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں رہتی ہے۔ فطری بات ہے جہاں تعداد میں زیادہ افراد ہوں گے وہاں کے مسائل بھی زیادہ ہوں گے۔مشرق وسطیٰ کام کی غرض سے جانے والے پاکستانیوں کو اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ در پیش ہے وہ ایجنٹ حضرات کا ہے ، ان ایجنٹ حضرات میں سے بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں لیکن زیادہ تر اوور سیز پاکستانی ان کے بارے میں شکایات کرتے نظر آتے ہیںجو چند روپوں کی خاطر اپنے ہی ہم وطنوں کا گلہ گھونٹ رہے ہیں۔ ان ایجنٹس کا ’’طریقہ واردات‘‘ یہ ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک میں موجود کمپنیوں کو آفر کر تے ہیں کہ آپ ہمیں کمیشن دیں تو ہم آپ کو سستی ترین لیبر فراہم کریں گے یعنی یہ لوگ اپنے ایک پائو گوشت کی خاطر دوسرے کی پوری بھینس ذبح کر رہے ہیں۔ہم لوگ دوسرے ممالک کی کمپنیوں کو قصور وار سمجھتے ہیں جبکہ قصور خود ہمارے اپنے لوگوں کا زیادہ ہوتا ہے۔اس طرح یہ ایجنٹ حضرات غربت کی چکی میں پسنے والے بے روزگار مزدور طبقے کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور انہیںسہانے سپنے دکھا کر انتہائی کم اجرت پر بیرون ملک روانہ کر دیتے ہیں۔ان ہنر مندوں میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو ویزہ کیلئے رقم بھی کسی سے ادھار لیکر ادا کرتے ہیں۔ 
چند روز قبل  اسی طرح کا ایک’’ شاہ پارہ ‘‘  نظر سے گزرا تھا جس میںسعودی عرب کیلئے کارپینٹر، مستری، سٹیل فکسر وغیرہ کی ماہانہ اجرت 950 ریال بتائی گئی تھی جو پاکستانی تقریباََ 45 ہزار روپے بنتے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ پردیس کی خاک چھاننے والے یہ ہنر مند 45 ہزار روپے پاکستانی میں سے اپنے اخراجات بھی کریں گے جو وہاں ذرائع کے مطابق کم از کم 375 ریال ماہانہ ہیں اور باقی بچ جانے والے 575 ریال میں سے پاکستان میں اپنے اہل خانہ کو بھی بھیجیں گے اور اپنی ’’بچت‘‘ بھی کریں گے۔پاکستان میں معاشی حالات برے سہی لیکن یہاں بھی محنت کش 12 گھنٹے روزانہ محنت مزدوری کرکے تقریباََ 40 ہزار ماہانہ کما ہی لیتا ہے۔ اگر بیرون ملک جا کر 45 ہزار روپے ماہانہ سے کم ہی کمانا ہے تو محنت کشوں کو کیا فائدہ؟ ایجنٹ حضرات اگر اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مخلص ہیں تو وہ مشرق وسطیٰ کی کمپنیوں کو اس بات کا پابند بنائیں کہ مزدور کی کم سے کم اجرت 1500 سے 2000 سعودی ریال مقرر کی جائے تو ہم آپ کو ہنر مند فراہم کریں گے۔  وزیر اعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے وزارت اوور سیز پاکستانیز کو اصلاح احوال کیلئے ہدایات جاری کریں تا کہ ہنر مند پاکستانی مزید استحصال کا شکار نہ ہوں۔ آخر میں محنت کشوں کے نام اپنا ایک شعر 
اس سے بڑھ کر بات کیا ہونی ہے درد و سوز کی
سر چھپانے کو جگہ اور ایک روٹی روز کی

ای پیپر دی نیشن