مسیحائے ملائک ،پیشوائے آزادی و حریت 

Mar 07, 2022

 آغا سید حامد علی شاہ موسوی 

 خیر البشر سردار انبیاء وجہ تخلیق کائنات کے پیارے نواسے امام حسین ؑ نے شیر خدا حضرت علی ابن ابی طالب و خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؓ کے صحن اقدس میں ہجرت کے چوتھے سال تین شعبان المعظم کے دن  ولادت پائی۔علامہ کاشفی رقم کرتے ہیں کہ امام حسین ؓکی ولادت کے بعد خلا ق عالم نے سردار ملائکہ جبرائیل ؑکو حکم فرمایا کہ زمین پر جا کر میرے پیارے حبیبؐ کو ان کے پیارے نواسے حسین کی ولادت پر مبارک باد دو۔حضرت جبرائیل جب فرشتوں کے لشکر کے ہمراہ محبوب خدا کو حسین کی آمد کی مبارک باد دینے آرہے تھے تو ان کی نظر ایک فرشتہ پر پڑی جو زارو قطار رو رہا تھا جبرائیل نے رونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگا میرا نام فطرس ہے میں ستر ہزار فرشتوں کی قیادت کرتا تھا۔
روضۃ الشہداء اور غنیۃ الطالبین از شیخ عبد القادر جیلانیؒ میں مرقوم ہے کہ ستر ہزار فرشتوں کا سردار فطرس جسے بال و پر سے اس لئے محروم کر دیا گیا تھا کہ اس نے مرضی معبود سمجھنے میں ایک پل کی دیر لگائی تھی جب اسے معلوم ہوا کہ جبریلؑ رسول خدا ؐ کو امام حسین ؓ کی ولادت پر تہنیت پیش کرنے جا رہے ہیں تو گڑگڑایاکہ مجھے بھی ساتھ لے چلو وہیں سے مجھے شفا اور معافی مل سکتی ہے ،روح الامین انہیں ساتھ لے آئے اور سرور کونین کو غایت بیان فرمائی تو آنحضور ؐ نے فرمایا کہ اس معتوب فرشتے کو امام حسین ؑ کے جسم اطہر سے مس کرو،جیسے ہی ایسا کیا گیا تو اس کے بال و پر دوبارہ نمودار ہوگئے اور وہ فخرو مباہات کرتا ہوا آسمان پر چلا گیا اور حسب سابق ستر ہزار فرشتوں کی سرداری کرنے لگا۔
اپنے پیارے نواسے امام حسین ؓ کی آمد کی خوشخبری کا سن کر جناب رسالت ماب ؐتشریف لائے، بیٹے کو گود میں لیا، داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دے دی۔ پیغمبر کا مقدس لعاب دہن حسین علیہ السّلام کی غذا بنا۔(نو رالابصار)عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہؐنے حضرات حسن وحسین علیھما السلام کے عقیقہ میں ایک ایک مینڈھا ذبح فرمایا۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی،سنن بیہقی)
پیغمبر اکرؐم نے اللہ کے حکم سے آپ کا نام حسینؓ رکھا۔. چنانچہ رسول اکرمؐ نے سب کو بتا دیا کہ: "مجھے فرمان ملا کہ اپنے دو بیٹوں کو حسن اور حسین کا نام دوں۔ منقول ہے کہ امام حسینؓ کا نام تورات میں شْبَیر اور انجیل میں طاب تھا۔ روایات میں ہے کہ حسن اور حسین دو بہشتی نام ہیں اور اسلام سے قبل یہ نام کہیں ذکر نہیں ہوئے تھے۔( ابن شہرآشوب، طبقات)علم النسب کے ماہرین کا کہنا ہے کہ خداوندعالم نے فاطمۃ زہراؑ کے دونوں شاہزادوں کانام انظارعالم سے پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن وحسین کے نام سے کوئی موسوم نہیں ہوا تھا۔
امام عالی مقام حضر ت امام حسینؓ کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور القاب مبارکہ سید الشہداء ، سبط اصغر،ریحانۃ الرسولؐ، سیدشباب اہل الجنۃ ،الرشید، الطیب ، الزکی ،السید، المبارک ہیں۔
مولانا شبلنجی نور الابصار میں رقم کرتے ہیں کہ جب امام حسینؓ بھوکے ہوتے تو سرور کائنات ؐ تشریف لا کر اپنی پاک زبان امام حسینؓ کے دہن مبارک میں دے دیتے جسے چوس کر امام حسین سیراب ہو جاتے ،لعاب رسول ؐ سے ہی امام حسین کا گوشت پوست بنا اسی سبب رسول کریم ؐسے بہت مشابہ تھے اور کاررسالت انجام دینے کی صلاحیت کے مالک بنے ۔
 سردار دوجہاں اپنے نواسوں حسنین کریمینؐ سے بے پناہ محبت کرتے تھے اوراللہ نے بھی ان شہزادوں پر عظمتوں کی حد کردی ۔امام حسن ؓ اورا مام حسینؓ کے بچپن کا واقعہ ہے عید آنے والی ہے اور بچوں نے ماں  سے فرمائش کی کہ مادرگرامی اطفال مدینہ عید کے دن زرق برق کپڑے پہن کرنکلیں گے اورہمارے پاس نیا لباس نہیں ہے ہم کس طرح عید منائیں گے ماں نے کہا بچوگھبراؤ نہیں، تمہارے کپڑے درزی لائے گا عید کی رات آئی بچوں نے ماں سے پھرکپڑوں کا تقاضاکیا،ماں نے وہی جواب دے کرشہزادوں کوخاموش کردیا۔ابھی صبح نہیں ہونے پائی تھی کہ ایک شخص نے دق الباب کیا، دروازہ کھٹکھٹایا کنیز بتول ؓحضرت فضہ دروازہ پرگئیں ایک شخص نے ایک بقچہ جو کھولا توبچوں کے تمام ضروری کپڑے موجود تھے ماں کا دل باغ باغ ہوگیا وہ توسمجھ گئیں کہ یہ کپڑے جنت سے آئے ہیں لیکن منہ سے کچھ نہیں کہا بچوں کوجگایا کپڑے دئیے صبح ہوئی بچوں نے جب کپڑوں کے رنگ کی طرف توجہ کی توکہا مادرگرامی یہ توسفید کپڑے ہیں اطفال مدینہ رنگین کپڑے پہننے ہوں گے، اماں جان ہمیں رنگین کپڑے چاہئیں۔
حضورؐ کواطلاع ملی، تشریف لائے، فرمایا گھبراؤ نہیں تمہارے کپڑے ابھی ابھی رنگین ہوجائیں گے اتنے میں جبرئیل ؑ آفتابہ لیے ہوئے آ پہنچے انہوں نے پانی ڈالا محمد مصطفی ؐکے ارادے سے کپڑے سبزاورسرخ ہوگئے سبزجوڑاحسن ؓنے پہنا سرخ جوڑاحسین ؓ نے زیب تن کیا، ماں سلام اللہ علیہا نے گلے لگا لیا  والد علی مرتضیٰؓ نے بوسے دئیے ناناحضورؐ نے اپنی پشت پرسوارکرکے مدینہ کی گلیوں میں گھمانے لگے مہارکے بدلے زلفیں ہاتھوں میں دیدیں۔حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمؐ جب سجدے میں ہوتے تو امام حسین ؓ آپ کی کمر مبارک پر سوار ہو جاتے اور نبی کریمؐ اپنے سجدوں کو طویل کردیا کرتے تھے ۔ایک موقع پر آپ سے عرض کیا گیا اے اللہ کے نبی ؐ آپ نے سجدہ لمبا کیوں کردیا تھا تو آپ نے فرمایا مجھ پر میرا بیٹا سوار تھااس لئے جلدی اٹھنا اچھا نہ لگا(مستدرک الحاکم ،المسند،نسائی )
احادیث میں ملتا ہے کہ امام حسن و حسین جنت کی زینت ہیں عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ ’’جب جنتی حضرات جنت میں سکونت پذیر ہونگے تو جنت سوال کریگی پروردگار ! ازراہ کرم کیا تو نے وعدہ نہیں فرمایا کہ تو، دو ارکان  یعنی ستونوںسے مجھے آراستہ فرمائیگا ؟ تو رب العزت ارشاد فرمائیگا: کیا میں نے تجھے حسن و حسین ؓ سے مزین نہیں کیا؟ یہ سن کر جنت دلہن کی طرح فخر و ناز کرنے لگے گی۔( معجم اوسط طبرانی،جامع الاحادیث للسیوطی، ،الجامع الکبیر للسیوطی،،کنزالعمال)
پیغمبر اسلامؐ کی یہ حدیث مسلمات اورمتواترات سے ہے کہ ’’الحسن و الحسین سیدا شباب اہل الجنتہ و ابوہما خیر منہما‘‘ حسن اور حسین ؓ جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدر بزرگواران دنوں سے بہتر ہیں (ابن ماجہ) صحابی رسولؐ جناب حذیفہ یمانی ؓ کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن سرور کائناتؐ کو بے انتہا مسرور دیکھ کرپوچھا حضورؐ،افراط مسرت کی کیا وجہ ہے فرمایا اے حذیفہ ؓ آج ایک ایسا  فرشتہ نازل ہوا ہے جومیرے پاس اس سے قبل کبھی نہیں آیا تھا اس نے مجھے میرے بچوں کی سرداری جنت پرمبارک دی ہے اورکہا ہے کہ’’ان فاطمتہ سیدتہ نساء  اہل الجنتہ وان الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنتہ‘‘ فاطمہ سلام اللہ علیہا جنت کی عورتوں کی سردارہیں اورحسنین ؓ جنت کے جوانوںکے سردارہیں۔(کنزالعمال جلد ۷، تاریخ الخلفا، اسدالغابہ، اصابہ جلد ۲ ، ترمذی شریف، مطالب السول، صواعق محرقہ)۔ 
جامع ترمذی اور دیگر کتب احادیث میں منقول ہے کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ ایک دن فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا رسول اللہؐ کے لئے غذا لے کرآئیں اس دن رسول اللہؐ میرے گھر میں تشریف رکھتے تھے رسول اللہؐ نے اپنی بیٹی کی تعظیم کی اور فرمایا جاؤ میرے چچازاد بھائی علی اور میرے بچوں حسن و حسین کو بھی بلالاؤتاکہ ہم مل کرکھانا کھائیں کچھ دیر بعدعلی و فاطمہ حسنینؓ کا ہاتھ تھامے ہوئے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اسی وقت جبرئیلؑ آیۃتطہیر لے کر نازل ہوا۔اے پیغمبر کے اھل بیت خدا تو بس یہ چاھتاہے کہ تم کوہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویساپاک و پاکیزہ رکھے۔ (احزاب 33 )
ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے مجھ سے فرمایا کساء خیبری لے آؤ(یہ ایک بڑی عباتھی)رسول اللہ ؐنے علیؓ کو اپنے داہنے طرف زہراکو بائیں طرف اور حسن و حسین کو زانوؤں پر بٹھایا اور یہ عباسب پرڈال دی اپنے بائیں ہاتھ سے عباکو سختی سے تھاما اور سیدھا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاکر تین بار فرمایاخدا یا یہ میرے اھل بیت اور میرا خاندان ہے جیسا کہ تونے وعدہ کیا ہے ان سے ہرطرح کی برائی کودور رکھ اور انہیں پاک رکھ میں اس کے ساتھ جنگ کروں گا جو ان کے ساتھ جنگ کرے اور اس سے میری صلح ہے جو ان سے صلح رکھے اوردشمن ہوں اس کا جوان سے عداوت رکھے۔ 
 جب نصاری نجران کے ساتھ مباہلہ کا حکم ہوا’’تو ان سے کہو کہ آؤ (ہم اور تم اس بارے آپس میں مباہلہ کر لیتے ہیں، اسی طرح کہ) ہم اور تم خود بھی (میدان میں) آتے ہیں، اور اپنے اپنے  بچوں،خواتین اور نفوس کو بھی بلا لاتے ہیں، پھر ہم سب مل کر اللہ  تعالیٰ کے حضورؐ عاجزی و زاری کے ساتھ دعا (و التجا) کرتے ہیں، کہ اللہ کی لعنت ہو ان پر، جو جھوٹے ہوں۔(سورہ آل عمران آیت 61) یہ آیت حسنین کریمینؓ کے فرزندان رسولؐ ہونے پر نص قرآنی ہے اسی آیت کے ذریعے بحکم الہی پنجتن پاک کا تعارف ہوا۔جب رسول خدا نے حضرت علی ؓ ، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا اور حضرت حسن، حسینؓ کو ساتھ لیااور نصرانیت پر اسلام کی صداقت کی فتح عظیم حاصل کی ۔زمخشری،فخرالدین رازی، بیضاوی اور دیگر مفسرین  نے کہا ہے کہ اس آیہ کریمہ میں "ابناء نا"(ہمارے بیٹوں) سے مراد حسن اور حسینؑ ؓہی اور "نساء نا" سے مراد فاطمہ زہراء علیہا السلام اور "انفسنا" (ہمارے نفس یا ہماری جانوں) سے مراد حضرت علیؓ ہیں۔
عثمان بن ابی شیبہ جریر منصور منہال سعید بن جبیر ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ حسن و حسین پر قرآنی کلمات پڑھ کر پھونکا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ تمہارے باپ (ابراہیم) بھی اسماعیلؑ و اسحاقؑ پر یہ کلمات پڑھ کر دم کیا کرتے تھے(صحیح بخاری:جلد دوم )
یعقوب بن حمید، حضرت سعید بن راشد سے مروی ہے کہ وہ لوگ نبی ؐ کے ساتھ ایک دعوت طعام کے لئے نکلے۔ حسینؑ گلی میں کھیل رہے تھے، نبیؐ لوگوں سے آگے بڑھے اور اپنے ہاتھ پھیلا دئیے  سیدنا حسین ادھر ادھر بھاگنے لگے، نبی ؐان کو ہنساتے رہے یہاں تک کہ ان کو پکڑ لیا آپ نے ایک ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا سر کے اوپر رکھا اور بوسہ لیا فرمایا حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، اللہ اس سے محبت رکھتے ہیں جو حسین سے محبت رکھتے ہیں حسین پیشانی ہیں پیشانیوں میں سے۔ (سنن ابن ماجہ)
وجہ تخلیق کائنات ہادی برحق محمد مصطفیؐ نے اپنی لا تعداد احادیث کے ذریعے انسانیت کو عظمت حسین سے آگاہ کیا صرف یہ نہیں کہا کہ حسین مجھ سے ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ میں حسین سے ہوں ۔آغوش رسالت ؐ اور دوش نبوی پر رسول حسین ؑ کا تعارف کراتے رہے اور بعد از رحلت رسول اللہ ؐ  سیدنا  حسینؓ نانا کے دین کا رہتی دنیا تک تعارف بن گئے ۔ 
زندہ حق از قوت شبیریؑ است 
باطل آخر داغ حسرت میری است 
حکیم الامت دانائے راز حضرت علامہ محمد اقبال ؒ نے بجا فرمایا تھاحق قوت شبیری کے طفیل زندہ ہے اور باطل کا مقدر حسرت کی موت ہے ۔جب کہیں آزادی  وحریت کا نام آتا ہے تو بلا ساختہ ذہن میں حسین اور کربلا ابھرنے لگتے ہیں ،جب کوئی مظلوم کسی ظالم کے خلاف علم انکار بلند کرتا ہے تو کربلا کو مثال قرار دیتا ہے
 صدقِ خلیل بھی ہے عشق صبرِ حسین بھی ہے عشق معرکہ  و جود  میں  بدر و حنین  بھی  ہے عشق
امام حسینؓ کی قربانی تا ابد پیغام مصطفوی کی بقا اور دوام کی ضمانت بن گئی ۔آج دنیاکے ہر مظلوم کیلئے حسین مینارہ نور ہے اورحسین کا نام مظلوموں کوظالموں سے انکار کی توانائی فراہم کرتاہے ،یہی نام دین نبیؐ کیلئے قربانی کا جذبہ بیدار رکھے ہوئے ہے ۔بلا شبہ کشمیر و فلسطین سمیت جہاں جہاں آزادی و حریت کی لہریں ہیں ان میںبھی حسینی فکر کار فرما ہے ۔جس طرح رسول خداانسانیت کو نجات عطا کرنے کے سبب محسن انسانیت ہیں اسی طرح امام حسین انسانی اقدار کی بقا کا تحفظ کرنے کیلئے بے مثل قربانی پیش کرنے کے سبب شہید انسانیت ہیں جن کی سیرت سے ہر قوم مذہب مسلک  تا ابد فیض حاصل کرتی ر ہے گی ۔

مزیدخبریں