بھگت کبیر داس اور صوفی شاعر میاںمحمدبخش نے سمجھانے کیلئے اس بھیڑیے کی کہانی سنائی جو رات کے وقت آئینوں سے بنی کسی عمارت میں گھس گیا۔ صبح ہوئی تو اس نے دیکھا کہ وہ چاروں اطراف سے بھیڑیوںمیں گھرچکاہے۔ اسے خوف محسوس ہوا تو اس نے غراکر ان بھیڑیوں کو خوف زدہ کرنا چاہا اورپھر جب اس کی اپنی آواز گونجی تو وہ سمجھا کہ سب بھیڑیے اس پر غرارہے ہیں اس کے خوف میں اضافہ ہوا تو اس نے حملہ کردیا اورپھر اسے یوںلگاجیسے سب نے اس پر حملہ کردیاہے۔شام کے وقت اس عمارت کا مالک آیا تواس نے دیکھا فرش پر ہرطرف بھیڑیے کا خون پھیلاہوا تھا یعنی بھیڑیا اپنے عکس سے لڑتا لڑتا مرچکا تھا۔
اس کہانی سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اگرہم مسائل کے حل کی مہارتیںسیکھ بھی جائیں، رواداری کی اہمیت جان بھی لیں لیکن اگرہم اپنے دیکھنے کا ڈھنگ نہ بدلیں تو مسائل حل نہیںہوسکتے۔ جب تک ہمارے دیکھنے کا زاویہ نہیں بدلتا ہماری مہارتیں اور علم بے سود ہے جب تک ہم دوسروں کو اپنے سے الگ کرکے اورسلجھائو،مکالمے اور عدم تشدد کے اصولوںکی روشنی میں روادری کے راستے پر چلتے ہیں اورپھر امن کی منزل پالتے ہیں۔ہم دنیا میں زندہ ہی اس لیے ہیں کہ یہ سب ہمارے ساتھ ہیں اورہم سب جینے میں ایک دوسرے کی کسی ایک نسل کو دوسری نسل سے ممتاز نہیں سمجھتا اورنہ ہی کسی ایک نسل یا گروہ کو خالص رکھنے کیلئے نسل کشی کی حمایت کرتاہے۔ کسی ایک گروہ کا حصہ نہیں بن سکتا جس کا مقصدکسی دوسرے گروہ کے خلاف نفرت اور تعصب پھیلانا ہو۔ اقلیتی گروہوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور تشدد کرنے کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔ دوسروں کے مذہبی ونظری آزادی کے حق کو تسلیم کرتاہے۔ اختلافات کو مخالفت سمجھنے کی بجائے دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کی کوشش کرتاہے۔ بحث اور مناظرے کی بجائے مکالمے پر یقین رکھتاہے۔تنازعہ کی صورت میں ایسا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتاہے جس میں کسی کو شکست کا احساس نہ ہو اور مسائل بھی حل ہو جائیں۔ اختلافات کو سمجھتے ہوئے مشترکات پر نگاہ رکھتاہے یعنی اس کی نگاہ ان مقامات کو تلاش کرتی ہے جہاں سے تعلقات کو جوڑاجاسکتاہے۔بولنے کے علاوہ سننے کے فن میں بھی ماہرہوتاہے۔ مسائل اور لوگوں کو الگ الگ کرکے دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہوئے مسائل پر سختی اورلوگوںپرنرمی کا اور گفتار اور عمل میں عدم تشدد کا اصول اپناتاہے۔ دوسروں کو مصیبت میں دیکھ کر مذہب اور عقیدہ تبدیل کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ خالص درمندی کے جذبے کے تحت دوسرے کی مشکلات دورکرنے کی کوشش کرتاہے۔
رواداری کچھ مہارتوں،علوم اور رویوں کا تقاضاکرتی ہے، روادار انسان کی درج بالاخصوصیات یہ بھی ظاہرکرتی ہیں کہ رواداری دیکھنے، جینے اور عمل کرنے کا ایک حیات دوست زاویہ ہے، ایک روادار انسان زندگی، معاشرت اور لوگوں سے تعلقات کو وسیع تناظرمیں دیکھتاہے، لہٰذا رواداری اور تعمیرامن کی یہ مہارتیں سیکھنے سے قبل زندگی اور زندگی سے جڑے اپنی ضد کی نفی کرکے ان سے بات چیت کرناپسند نہیں کرتے تو اس وقت تک ہم اپنے ہی عکس سے لڑتے رہتے ہیں۔جب تک ہم دوسرے فریق کو دشمن سمجھتے رہتے ہیں ہمیں ہر دم یہ خوف رہتاہے کہ وہ ہمیں نقصان پہنچانے والاہے، یوںبھی ہوتاہے کہ ہم مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے محض اس بات سے خوشی حاصل کرنے لگتے ہیں کہ دوسرا غلطی پرہے۔ ہم حق پرہیں اور دوسرا باطل ہے، جب ہم دوسرے کو غلط سمجھنے سے لطف اٹھانے لگتے ہیں تو تنازعہ ہی ہمارا مشغلہ بن جاتاہے، یہ ہمارے وقت کا مصرف اورہماری شناخت بن جاتاہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم تنازعہ کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں اور جب تنازعہ نہیں رہے گا توہم بھی نہیں رہیںگے۔یہ بھی ہوتاہے کہ ہم اس انتظارمیں رہتے ہیں کہ دوسرے کو اپنی غلطی کا کب احساس ہو اور ہم سے معافی مانگنے آجائے۔ ان سب باتوں سے ظاہر ہوتاہے کہ ہم اس لیے مسائل حل نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ہم مسائل سے نفسیاتی لطف اٹھارہے ہوتے ہیں اس صورت حال سے لطف اندوز ہونے والوں کی مثال ایسے بچے کی ہے جوکوئی ایسا تیزدھار پتھرچبارہاہو جو اس کا منہ زخمی کررہاہولیکن وہ اپنا خون اس دھوکے میں چوستا رہتاہے کہ پتھر سے رس نکل رہاہے۔تنازعات سے لطف اندوزہونے کے علاوہ اکثرصورتوںمیں ہم اس لیے مسائل پر سنجیدگی سے غورنہیں کرنا چاہتے کیونکہ ہم ذمہ داری سے بچنا چاہتے ہیں ہم دوسروں پر ذمہ داری ڈال کر اپنے آپ کو درست سمجھنے کی کوشش میں رہنا چاہتے ہیں ہم وہ تصویرخراب نہیں کرنا چاہتے جس میں ہمیں اپنی شکل اچھی لگتی ہے۔