گو بلوچستان میں سرداری نظام اتنا مضبوط ، مربوط اور مستحکم نہیں رہا جتنا قیامِ پاکستان سے قبل تھا لیکن اب بھی سردار کی اہمیت اور اپنے قبیلے میں حیثیت مسلم ہے۔ ایک وقت تھا کہ سردار کی منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ حرفِ آخر سمجھا جاتا تھا۔ قبیلے کے فرد کے منہ سے نکلتی ہوئی ہر سانس ان کی دین اور مرہونِ منت تھی۔ یہ بیک وقت حاکم تھا، قاضی اور قانون بھی۔ سرداروں کے اختیارات کو تقویت 1876ءمیں ملی۔ کیپٹن سنڈے مان، جو بعد میں سر رابرٹ سنڈے مان کہلایا، نے خان قلات اور سرداروں کے درمیان معاہدہ کروایا جس کی روسے سردار داخلی طور پر خودمختار ہو گئے اور خان سے ان کی وفاداری محض رسمی رہ گئی۔ بیرونی حملے کی صورت میں ان پر خان کی مدد کرنا ضروری تھا۔ اس شق میں سنڈے مان کی چالاکی کا عنصر نمایاں تھا۔ خان کو ’لولی پاپ‘ دیا گیا کیونکہ بیرونی جارحیت دراصل سرداروں کے خلاف ہوئی اور ان کا یکجا ہونا ضروری امر تھا۔
اس سلسلے میں دو جرگے بنائے گئے دارالامرا ا اور دارالعوام۔ ان کی خودسری اور انانیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر دو جرگوں نے الحاق پاکستان سے انکار کر دیا۔ خان ایک سال تک جو پس و پیش کرتا رہا اس کا جواز ان جرگوں کے فیصلے کو بنایا۔ قائد اعظم سے بڑا قانون دان کون ہو سکتا تھا۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ ذاتی حیثیت میں الحاق کا اعلان کر دے، بقیہ امور ریاست خود سنبھال لے گی۔ وہ شروع میں اس پر بھی راضی نہ ہوا۔ گو اس کے اختیارات سکڑ اور سمٹ گئے تھے مگر تھا تو والیِ ریاست ہی۔ جب مکران اور خاران کی سابقہ ریاستوں کے وارثان نے حکومت کی شہ پر ریاستوں کی بحالی کا اعلان کیا تو مکران کے باقی خان گچکی اور جام آف لسبیلا کو حکومتِ پاکستان نے والیانِ ریاست تسلیم کر لیا۔ ریاست قلات محصور ہو گئی۔ سمندری علاقوں تک رسائی ممکن نہ رہی، لہٰذا مجبور ہو کر خان نے ذاتی حیثیت میں ایک سال بعد الحاق کر دیا۔ پاکستانیت کا سہرا اپنے سر پر سجانے کا دعویٰ کیا۔
قبیلے مختلف علاقوں میں بانٹ دیے گئے۔ سرداروں کی سوچ بھی اپنی اپنی ہے مگر چند قدریں مشترک ہیں انانیت، خودسری ، منقسم مزاجی، رکھ رکھاﺅ، عزتِ نفس۔ نوکر شاہی کو عطا اللہ مینگل کی خودسری ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ اس کو ہٹا کر اس کے چچا کرم خان مینگل کو سردار بنانے کا تجربہ کیا گیا۔ وہ ہاتھ جوڑتا رہا کہ اسے سردار نہ بنایا جائے۔ قبیلے کے لوگ اسے ماریں گے۔ اس پر ڈپٹی کمشنر بہادر بولے، ’فکر نہ کرو۔ چوہا کبھی بھی شیر کی کچھار میں نہیں گھستا‘۔ مستونگ میں دربار لگا۔ کرم خان کو خلعتِ فاخرہ پہنائی گئی۔ چارسو مبارک مبارک کا شور اٹھا۔ اس پر ایک معمر سردار بہرام خان لہڑی بولا، ’کرم خان کفن پہننے کی مبارک ہو‘۔ اسی رات عطا اللہ کے دستِ راست علی محمد مینگل نے سارے خاندان کو مار دیا۔ نوکر شاہی بھول گئی کہ ہر حکمتِ عملی سازگار حالات کی مرہونِ منت ہوا کرتی ہے۔ اسی طرح محمد زمان محمد شاہی قبیلے کے سردار کو ہٹا کر فقیر عمر کو سردار بنا دیا گیا۔
میں اس وقت ناظم (اے سی) قلات تھا ۔ ایک رات نصف شب کے قریب کمشنر راجہ احمد خان کا فون آ گیا۔ بولے، ’بینچہ کے قریب سفر خان زرکزئی نے ڈاکہ ڈالا ہے۔ کئی مسافروں کا سامان لوٹنے کے بعد نائب تحصیلدار اورنگ شاہ کو بھی یرغمال بنا کر لے گیا ہے۔ فوراً پہنچو۔‘ ان دنوں قلات سب ڈویژن دو تحصیلوں پر مشتمل تھا۔ سارا اواران اور جھلوان ، ہیڈ کواٹر مستونگ تھا۔ یہ خوبصورت سرسبز و شاداب شہر کوئٹہ سے تیس میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ (اب دونوں سب ڈویژن اضلاع بن چکے ہیں۔ بینچہ مستونگ سے 80 میل دور تھا۔ میں لیویز کو لے کر جب وہاں پہنچا تو سورج نکل آیا تھا۔ سراغیوں نے بتایا کہ رندات (پاﺅں کے نشان) محمد تاوہ کی طرف جاتے ہیں۔ پہاڑوں میں گھرا ہوا یہ قصبہ ڈاکوﺅں کی آماجگاہ تھا۔ فاتوگر پہاڑ کے عقب میں سارا علاقہ دشوار گزار تھا۔ ہم دو دنوں کے سفر کے بعد محمد تاوہ پہنچے تو سفر خان روپوش ہو گیا۔ میرے ساتھ بلوچ لیویز کے علاوہ ایف سی فورس بھی تھی۔ سفر خان زرکزئی سردار دودا خان کا دستِ راس تھا۔ جب سردار کو ایک قتل کے الزام میں سزا ہو گئی تو وہ دست درازی پر اتر آیا اور حکومت سے سرداری کا مطالبہ کرنے لگا۔ انکار پر وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ روپوش ہو گیا۔ جب ہم فاتوگر پہاڑ کی طرف بڑھ رہے تو دور سے ایک شخص دکھائی دیا۔ وہ اورنگ شاہ تھا جس کو سفر خان یرغمال بنا کر لے گیا تھا۔ بولا۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ میں سید ہوں تو انھوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ صرف جوتے اتروا لیے کیونکہ ان کے پاس جوتوں کی کمی تھی۔ محمد تاوہ کے محاصرے کے دوران عجیب انکشافات ہوئے۔ وہاں بھی سردار مینگل نے پرائیویٹ جیل بنا رکھی تھی۔ جس میں ایک مرد ، اس کی بیوی اور بچے قید تھے۔ ہم نے جیل توڑ کر انھیں رہائی دلوائی۔
یہ واقعہ اس لیے یاد آیا ہے کہ گزشتہ دنوں بلوچستان کے ایک سردار عبدالرحمن کھیتران کی پرائیویٹ جیل سے بھی کچھ لوگ برآمد ہوئے ہیں۔ کھیتران صوبائی حکومت کا وزیر تھا۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق قیدی خان محمد مری کی لڑکی کو قتل کرنے سے پہلے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پورے صوبے میں شدید احتجاج ہوا۔ نتیجتاً حکومت کو ’بامر مجبوری‘ کھیتران کو گرفتار کرنا پڑا۔ جن لوگوں نے اس کی گرفتاری کی وڈیو یو دیکھی ہے، انھیں شدید دکھ ہوا ہے۔ کسی قسم کی ندامت، شرمندگی یا تا¿سف کے آثار نہ تھے۔ اس نے کیمرے کو دیکھتے ہوئے وکٹری کا نشان بنایا۔ کچھ یوں گمان ہوتا تھا کہ بربریت اور درندگی نے مجسم شکل اختیار کر لی ہے۔