حکومت پاکستان نے پیر تسمہ پا (آئی ایم ایف) کے بیل آو¿ٹ توسیع فنڈ سہولت پیکج کی 1.3 بلین ڈالرز کی قسط کے لیے آئی ایم ایف کی عائد کردہ چار سخت ترین شرائط کو بھی پورا کر دیا ہے اگر ستمبر میں آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بعد مفتاح اسماعیل کے معاہدے پر عملدرآمد جاری رکھا جاتا اور اس پروگرام کے شروع ہونے سے لے کر اب تک یہ پروگرام تین بار نہ معطل ہوتا اور اس دوران نو وزرائے خزانہ نہ بدلتے تو آئی ایم ایف کی نظر میں ہما ری کریڈیبلٹی اس حد تک خراب نہ ہو تی اور نہ ہی وہ اسقدر کڑی شرائط لگاتا۔ تا ہم آئی ایم ایف کی عجیب منطق ہے کہ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے، 180 ارب کے نئے ٹیکسوں اور بجلی پر مزید 335 ارب کا اضافی سرچارج لگوانے کے بعد کہہ رہا ہے کہ اب مہنگائی بڑھ رہی ہے لہٰذا شرح سود 20 فیصد کر دی جائے۔ آئی ایم ایف کے ان اقدامات اور ڈالر کو افغانستان بارڈر پر گرے مارکیٹ ریٹ کے برابر کرنے سے کیسے مہنگائی کو بڑھنے سے روکا جا سکے گا۔ پاکستان میں 40 فیصد کیش اکانومی ہے جو ٹیکس نیٹ سے باہر ہے لہٰذا پالیسی ریٹ بڑھانے سے مہنگائی کم نہیں ہو گی بلکہ جو صنعتیں بنکوں سے قرض لے کر پیداواری عمل کو جاری رکھتی ہیں۔ وہ KIBOR یعنی جس ریٹ پر بنک شہر یوں کو قرض دیتے ہیں وہ پالیسی ریٹ جمع 3 سے 4 فیصد بنکنگ سپریڈ سے 24 فیصد پر چلا جائے گا تو ان حالات میں کاروبار ی مصارف بڑھنے سے اشیاءخدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا یا پھر صنعتیں بند ہونگی، جیسا کہ فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کی صنعتیں بند ہو رہی ہیں، ڈالرز نہ ہونے سے بندرگاہوں پر کنٹینرز کلیئر نہیں ہو رہے ہیں۔ خام مال کی درآمدات کے رکنے سے برآمدات کی تیاری رکی ہوئی ہے اور ہمارے آرڈر ز دوسرے ملکوں کو مل رہے ہیں۔ اگر پاکستان 4 ارب ڈالرز کی امپورٹ کے لئے زرمبادلہ فراہم کر دے جس پر آئی ایم ایف بھی زور دے رہا ہے تو پھر ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر صفر ہو جاہیں گے اور کیسے آئی ایم ایف کی یہ شرط پوری ہو گی کہ جون 23 تک ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالرز ہوں۔ گزشتہ سات ماہ میں ہما ری برآمدات 7.5 فیصد گری ہیں۔
ترسیلات زر میں 19.8 فیصد کمی واقع ہوئی ہے FDI یعنی بیرونی سرمایہ کار ی میں 44 فیصد کمی ہوئی ہے اور ملکی قرضوں پر شرح سود میں 77 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بجلی کے سرچارج میں تین روپے 82 پیسے کے اضافے کی بجائے لائن لاسز، بجلی چوری، مفت بجلی گیس اور پٹرول حاصل کرنے والے حاضر سروس، ریٹائرڈ ججوں، جرنیلوں اور وزارت توانائی کے اعلیٰ عہدیداروں سے یہ مراعات واپس لے کر 600 سے 700 ارب بچت کر لی جاتی۔ مزید برآں افغان بارڈر پر ڈالر کا ریٹ پاکستان کی اوپن مارکیٹ سے 20 روپے زیادہ ہوتا ہم کیسے آئی ایم ایف کے مطالبے پر اس کے برابر ڈالر روپے کی parity کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری کرنسی کی قیمت افغانی طے کریں گے۔
ابھی تک آئی ایم ایف اور پاکستان کے معاشی منیجرزکے درمیان بیرونی فنا سنگ کے گیپ پر اختلاف ہے۔ ہمارے خیال میں حکومت پاکستان کو 5 ارب ڈالرز کی بیرونی امداد کی ضرورت ہے جبکہ آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ جون 23 تک ہمیں 7 ارب ڈالرز کی بیرونی امداد کی یقین دہانیوں حاصل کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ ہمیں پرائمری بیلنس یعنی سود کے اخر اجات کو نکال کر اسے سرپلس رکھنا۔علاوہ ازیں وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان بجٹ خسارے پر بھی اختلافات ہیں۔ گزشتہ سال جون میں بجٹ خسارے کا تخمینہ 4500 ارب لگایا گیا تھا جو اب 17 کھرب اضافے سے 6200 ارب ہو چکا ہے یعنی جی ڈی پی کا 7.4 فیصد ہو گیا ہے اور 9600 ارب کا بجٹ 11200 تک پہنچ چکا ہے۔
ان حالات میں NFC ایوارڈ میں 20 سے 30 فیصد کٹوتی کرنا پڑے گی مگر 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کی رضامندی کے بغیر ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا ہے۔ وفاقی ریونیو جس کا حجم 7400 ارب روپے ہے صرف اندرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی 5000 ارب پر پہنچ چکی ہے تو کہاں سے ڈیٹ سروسنگ، دفاع اور دوسرے شعبوں کے لیے پیسے آئیں گے۔ بیرونی قرضوں کی ری شیڈولنگ کے بغیر ہمیں space fiscal نہیں ملے گی اور اگر اندرونی قرضوں کی ری سٹرکچرننگ کرنے کا سوچا گیا تو خدشہ ہے کہ ہمارا بنکنگ سسٹم ہی دھڑام سے گر جائے۔ اس میں بے حد احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے وگرنہ لبنان والی صورتحال بن جائے گی جہاں لوگوں کو بنکوں سے اپنے پیسے ہی نکلوانے کے لیے بڑے مسائل کا سامنا ہے ۔