حکمران اور دریائے فرات کا کنارہ


اسحاق ڈار جب تک پاکستان سے باہر تھے اور ملک میں عمران خان کی حکومت تھی تو واپسی کے ذکر سے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ عدالت انھیں بلاتی تھی اور وہ اپنی بیماری کا بہانہ بنا تے تھے۔ سینیٹ کا الیکشن انھوں نے باہر بیٹھے بیٹھے ہی جیت لیا تھا حالانکہ کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لیے بائیو میٹرک ویریفیکیشن کی ضرورت تھی لیکن وہ معاملہ بھی باہر بیٹھے بیٹھے ہی حل کروا لیا گیا۔ سینیٹ کے الیکشن میں جیتنے والی نشست پر حلف اٹھانے کے لیے ان کا انتظار ہی رہااور وہ باہر بیٹھ کر ہی پاکستانی معیشت کی پالیسیوں میں کیڑے نکالتے رہتے تھے۔ جہاں جہاں اور جب جب ضرورت پڑی اسحاق ڈار نے عمرانی حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی بھی کی اور یہ بات باور بھی کروائی کہ وہ اگر وزیر خزانہ ہوتے تو کبھی ملکی معیشت کے اشاریے سرخ روشنی کے ساتھ نہ ٹمٹماتے یعنی جب تک رجیم چینج والا معاملہ نہ ہوا تب تک اسحاق ڈار اپنے تجربے کی بنیاد پر دو فیصلوں پر استقامت دکھاتے رہے، ایک تو یہ کہ جب تک ملک میں باد مخالف چل رہی ہے واپس نہیں جانا اور دوسرا یہ کہ ملکی کی معیشت پر تنقید کرتے رہنا ہے۔
پونے چار برس تک اسحاق ڈار اپنے وڈیو بیانات اور سوشل میڈیا کے سہارے پاکستانی عوام کو یہ سمجھاتے رہے کہ ملک کی معیشت کوصرف وہی سیدھا کر سکتے ہیںاور یہ کہ مملکت خدادداد میں ان سے بڑا کوئی معیشت دان نہیں جو ڈوبتی اکانومی کو سنبھالا دے سکے۔ پھر کیا ہوا کہ باد مخالف نے رخ بدلا۔ کرسیاں وہی رہیں کرسی نشین تبدیل ہو گئے۔ رجیم چینج ہو گئی۔ پاکستان تحریک انصاف نے تو استعفے دے کر ایوانِ اقتدار میں نئی حکومت کے لیے سکون ہی سکون کا ماحول پیدا کر دیا۔ جو محلوں میں تخت نشین تھے وہ سڑکوں پر آگئے اور جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے وہ بر سر اقتدار آگئے۔ اب نئی حکومت میں مفتاح اسماعیل نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا۔ کورونا ، سیلاب اور عالمی کساد بازاری کے باعث ملک کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے مشکل فیصلے کیے گئے ، ہر موڑ پر آئی ایم ایف کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس دوران اسحاق ڈار نے اپنی ہی حکومت کے مفتاح اسماعیل کو ہدفِ تنقید بنایا اور اپنی پارٹی قیادت کو یہ باور کرایا کہ مفتاح اسماعیل کے بس کی بات نہیں یہ کام صرف اسحاق ڈار ہی کر سکتاہے ،اس لیے ضروری ہے کہ ان کی وطن واپسی کے لیے راہ ہموار کی جائے ۔
بس اسحاق ڈار جیسے دیگر سیاستدانوں نے جن کا تعلق صرف ایک پارٹی سے نہیں بلکہ حکمران اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں سے بھی تھا ان کے لیے نیب کے قانون میں پارلیمنٹ سے ترامیم منظور کرائی گئیں ،جس کے تحت یہ قانون بن گیا کہ وہ مقدمہ جس میں پچاس کروڑ سے کم کی کرپشن ہو گی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گا۔ بس اس ترمیم کا ہونا تھا کہ بڑی بڑی کرپٹ مچھلیوں نے اس ترمیم کی بنیاد پر اپنے مقدمے ختم کروائے۔ اسحاق ڈار کا مقدمہ بھی اسی ترمیم کی بنیاد پر نیب عدالت سے واپس ہوا اور یوں ان کی واپسی کی راہ ہموار ہو گئی ۔ اس واپسی سے پہلے بھی اسحاق ڈار نے ایسے حوصلہ افزا بیانات دیے کہ لگ یہی رہا تھا کہ وہ ہی اس معاشی بحران میںمرد بحران ثابت ہوں گے اور قرضوں میں ڈوبے ملک اور معیشت کو بھنور سے نکالیں گے۔ کچھ مقتدر حلقوں نے بھی اسحاق ڈار کی قابلیت اور ان کے پر جوش بیانات کی روشنی میں خزانے کی کنجی انھیں ہی سونپنے کی حمایت کی۔
نتیجہ کے طورپر اسحاق ڈار پورے اعتماد کے ساتھ ائیر فورس کے طیارے میںوطن واپس پہنچے اور ایک عرصہ کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد انھوں نے قوم کو یہی پیغام دیا کہ اب میں آ گیا ہوں ،سب ٹھیک ہو جائے گا، فکر کی کوئی بات نہیں۔وہ آیا ، اس نے دیکھا ، اس نے حلف لیا اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ حال یہ ہے کہ کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی اسحاق ڈار پر بھروسا کر کے لانے والے بھی ان سے نالاں ہیں کہ کہ اگر کچھ کر نہیں سکتے تھے تو پھر بڑھکیں مارنے کی کیا ضرورت تھی۔ آج اسحاق ڈار نہ ڈالر کو کنٹرول کر پا رہے ہیں اور نہ مہنگائی کو ۔ معیشت سے جڑی ہر چیز انحطاط کا شکار ہے۔ مہنگائی کا گراف آسمان کو چھو رہا ہے، اسحاق ڈار کے استعفے کی بات ہو رہی ہے لیکن وہ پریس کانفرنس میں آکر علی الاعلان کہتے ہیں کس بات کا استعفیٰ ؟ وہ ایک سو ایک بار یہ بات عوام کو بتا چکے ہیں کہ یہ سب کچھ کیا دھرا عمران خان کا ہے، آئی ایم ایف سے سخت معاہدہ گزشتہ حکومت نے کیا۔ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ وزارت کی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے بھی انھیں اس معاہدے کا علم تھا لیکن اقتدار کی ہوس میں انھوں نے پہلے کبھی یہ بات نہیں کی۔
خود اسحاق ڈار اور ان کے حکمران ساتھیوں کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ مہنگائی کے مارے عوام میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے ۔ اسی لیے ڈار صاحب کی حفاظتی سکیورٹی میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے وہ جب جب کسی عوامی اجتماع میں جاتے ہیں سادہ لباس میں ملبوس عملہ انھیں حفاظتی حصار میں لے کر چلتا ہے ۔ میڈیا کے نمائندوں کو بھی پاس آنے کی اجازت نہیں ہو تی کیونکہ ڈر یہ ہے کہ عوام اپنا غصہ کسی غیر روایتی انداز میں نہ نکال لیں۔ وہ عوام کا اپنی طرف آنے والے رد عمل کو تو روک سکتے ہیں لیکن کسی غریب فاقہ کش اوراپنے حق سے محروم کسی بھی مجبور کی آہ کو نہیں روکا جا سکتا ۔ کہاں ہم اس نظام حکومت کو ماننے والے جس میں کہا جاتا ہے کہ فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا سوئے گا یا بکری بھی مرے گی تو اس کی باز پرس خلیفہ وقت سے ہو گی اور کہاں وہ برائے نام فلاحی ریاست جس کی ہر گلی میں کوئی نہ کوئی بھوکا اور فاقہ کش لبوں پر دہائیاں لیے حکمرانوں اور ان کے حواریوں کو کوس رہا ہے ۔ 

ای پیپر دی نیشن