پولیس بستر کے نیچے دیکھتی تو عمران مل جاتے۔ آصف زرداری
یونہی تو کسی نے ”ایک زرداری سب پہ بھاری“ کا نعرہ ایجاد نہیں کیا۔ جس طرح وہ گاہے بگاہے برجستہ جملہ بازی کرتے ہیں اسے اس کے ساتھ ان کے چہرے پر پھیلی سفاک مسکراہٹ اور بھی معنی خیز بنا دیتی ہے۔ پنجابی میں بھی ایک محاورہ ہے ”منجھی تھلے ڈانگ پھیرنا“ یعنی چارپائی کے نیچے بھی دیکھ لیا جائے کہیں مطلوبہ چیز وہاں تو نہیں۔ زمان پارک میں پولیس گئی عمران خان کو ڈھونڈنے وہ وہاں نہیں ملے۔ پولیس کہتی ہے کمرہ خالی تھا۔ جس پر زرداری نے یہ جملہ کسا ہے کہ کم از کم تلاشی لیتے ہوئے بیڈ کے نیچے بھی جھانک لیتے۔ پولیس سے زیادہ بہتر تو زرداری صاحب جانتے ہیں کہ کہاں کہاں چھپا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی بارہا پکڑ دھکڑ کی وجہ سے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ چھپنے کے لیے کون سی جگہ زیادہ محفوظ ہے۔ عام طور پر اگر پولیس کسی مشتبہ گھر پر یا جگہ پر چھاپہ مارتی ہے تو ملزم یا مشتبہ افراد غسل خانے میں سٹور میں واش روم میں یا چھت پر چھپ جاتے ہیں۔ مگر پولیس انہیں کامیابی سے ڈھونڈ نکالتی ہے۔ زمان پارک میں نجانے کیوں ایسا نہ کر سکی۔ شاید خان صاحب کو پکڑنے کا ارادہ ہی نہیں تھا۔ مگر دیکھ لیں جس طرح گھر والے کسی فرد کی گرفتاری پر مزاحمت کرتے ہیں۔ اسی طرح زمان پارک کے باہر بھی کارکنوں نے مزاحمت کی۔ اگر عام گھر والوں پر کارسرکار میں مداخلت کا پرچہ ہو سکتا ہے تو جن کی زبردست مزاحمت میڈیا پر سامنے آئی ہے ان کے خلاف بھی ہونا چاہیے تاکہ قانون سب کے لیے یکساں کا تقاضہ پورا ہو۔
٭٭٭٭٭٭
عورت مارچ کے شرکا کو تحفظ دیں گے۔ حکومت پنجاب
ضرور ایسا کریں۔ اپنے حق کے لیے سب کو اجازت ہے کہ بات کرے۔ جلسہ کرے جلوس نکالے۔ مگر جب یہ کام کھلے عام ہو تو احتیاط کا تقاضہ ہے کہ اس موقع پر اظہار رائے کی آزادی کا بے محابہ استعمال سوچ سمجھ کر کیا جائے تاکہ کسی دوسرے کی دلآزاری نہ ہو۔ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے ۔ بدقسمتی سے عورت مارچ کے حوالے سے روزاول سے ہی کچھ شدید تحفظات سامنے آئے ہیں۔ عورت مارچ کے منتظمین بھی ٹھنڈے دل سے اس طرف توجہ دیں۔ متنازعہ نعرے، پلے کارڈز اور بینرز کی سختی سے روک تھام کی جائے کیونکہ جب آپ بھوسے پر ماچس کی تیلی پھینکیں گے تو لامحالہ آگ تو لگے گی۔ ایسے نعرے، بینرز جس کی وجہ سے معاشرے کی بھاری اکثریت متنفر ہوتی ہے ڈسٹرب ہوتی ہے ان سے اجتناب ضروری ہے۔ قانون کے دائرے میں رہ کر آزادی رائے کا حق سب کو ہے ایسا نہ ہو کہ دوسرا فریق بھی یہی حق استعمال کرتا نظر آئے تو آپ کو تکلیف ہو۔ ہمارے معاشرے میں بہرحال عورت کو ماں بہن بیٹی بیوی چاروں لحاظ سے عزت دی جاتی ہے، جو ایسا نہیں کرتے وہ جاہل ہیں۔ ان کے خلاف آواز بلند کرنے کے ساتھ ان کی اصلاح بھی کی جائے۔ مادرپدر آزادی کی ہمارا تو کیا کوئی بھی معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔ خواتین اپنے حقوق کے لیے ریلی نکالیں مگر اس میں 90 فیصد مظلوم خواتین کی بھی بات کریں صرف چند فیصد مراعات یافتہ خواتین کی رام کتھا بیان نہ ہو، جو اے سی والے بنگلوں اور گاڑیوں کی عادی ہیں۔ اصل میں 90 فیصد مجبور، محکوم، استحصالی طبقاتی تفریق کا شکار ہماری خواتین کی بات کی جائے۔ انہیں وراثت کا حق دلائیں۔ ان کے روزگار کے اوقات اور اجرت بہتر بنائی جائے۔ صرف لباس اور آزادی ان کا مسئلہ نہیں۔
٭٭٭٭٭٭
کوئٹہ میں تنخواہ نہ ملنے پر صفائی ورکرز کی ہڑتال جاری
پہلے کون سا کوئٹہ صاف ستھرا چمک رہا تھا۔ اب وہ انگریزی دور والا کوئٹہ رہا ہی کہاں جسے سب چھوٹا لندن کہتے تھے۔ جس کی چھاﺅنی کے آغاز پر آج بھی وہ کتبہ موجود ہو گا جس پر لکھا تھا کتوں اور ہندوستانیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ 1975ءتک چند علاقوں کو چھوڑ کر پورا شہر صاف ستھرا تھا۔ صفائی کا عملہ دل و جان سے شہر کو صاف رکھتا تھا۔ 1980ءکے بعد مہاجرین کا سیلاب آیا تو اپنے ساتھ گندگی، منشیات اور ناجائز اسلحہ کے تحفے بھی لایا۔ جس سے آج تک شہر اور شہریوں کی جان نہیں چھوٹی۔ گرچہ معاشی بدحالی کی وجہ سے حکومت بلوچستان کو ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں دشواری پیش آ رہی ہے مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ غریب ملازمین پر ہی کلہاڑا چلایا جائے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار رہتا ہے۔ ہاں اگر حکومت بلوچستان واقعی چاہتی ہے کہ صوبے کے مالی حالات بہتر ہوں تو پھر اسے حکومتی اخراجات پر روک لگانا ہو گی۔ حکومتی وزراء، مشیروں، اعلیٰ سرکاری افسروں کے مراعات ختم کرنا ہوں گے۔ مفت پیٹرول ، بجلی، ٹیلی فون ، گیس، آمدورفت ، ہوٹلنگ ، بڑی گاڑیاں ، سرکاری غیر سرکاری دورے، مفت علاج ختم کرنا ہو گا۔ صفائی ورکرز کی تنخواہیں روکنے سے معاشی مشکلات کم نہ ہوں گے پہلے ہی کوئٹہ میں کیا بلوچستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں صفائی کی صورت حال ابتر ہے۔ اب کوئٹہ تو مکمل کچرا کنڈی بن چکا ہے۔ شہری بدترین گندگی اور بدبو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہی صورتحال جاری رہی تو شہر میں وبائی امراض پھوٹ پڑنے کا خطرہ ہے۔ اس لیے حکومت کارپوریشن والوں کی تنخواہ جاری کرنے میں تاخیر نہ کرے۔
٭٭٭٭٭٭
پاکستانی شہری نے میراتھن میں 6 سٹار میڈل لیکر تاریخ رقم کر دی
مبارک ہو پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر سلمان خان کو جنہوں نے دنیا کے چھ اہم ترین میراتھن مقابلوں میں حصہ لیا اور بوسٹن، لندن، برلن، شکاگو، نیویارک اور ٹوکیو میراتھن میں شامل ہو کر ان کو مکمل کرکے ریبٹ سکس سٹار میڈل حاصل کیا۔ یہ تو بس ہمارے ہاں ہی اپنے ہیروز کی قدر نہیں کی جاتی۔ اگر کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں پر بھی توجہ دی جائے تو ہمیں بہت اچھے کھلاڑی مل سکتے ہیں جو دنیا میں ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ مگر کیا کریں ہمارے ہاں ہیروں کی قدر نہیں۔ یہ مٹی میں رُل رہے ہوتے ہیں اور صرف نامور پتھروں کے بتوں کو پوجا جاتا ہے۔ جبھی تو دیکھ لیں جنہیں اپنے ملک میں کوئی نہیں پوچھتا وہ باہر جا کر کس طرح اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔ انہیں کس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ اپنے ملک میں گمنام اور دوسرے ممالک میں جا کر چمکنے والے یہ ہیرے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اچھا ہی ہوا کہ یہ باہر جا کر چمکے ورنہ سفارش اور اقربا پروری کی دھول میں چھپے ہوئے کئی گمنام ہیروں کی طرح یہ بھی اب تک اپنی شناخت ثابت کرنے میں ناکام رہتے اور ان کی اپنی کوئی پہچان نہیں ہوتی۔ یہ ہمارا المیہ ہے اسے بدلنے پر ہم ابھی تک قادر نہیں ہو سکے کیونکہ ہمارا نظام ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ تبدیلی ایک خواب تھی اور لگتا ہے خواب ہی رہے گی۔ دنیا کے ہر میدان میں ہم کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں بس انتخاب کرنے والے پتھروں کی جگہ اگر ہیرے چن لیں تو....
٭٭٭٭٭٭