خدا کے لیے اپنی ترجیحات.  بدلیں

ڈاکٹر عارفہ صبح خان 
تجاہل عارفانہ 
حدیقہ کیانی نے ایک عورت ہو کر بڑا کام کیا ہے۔ یہ معمولی کام نہیں ہے۔ حدیقہ کیانی نے سیلاب متاثرین کے لیے گھر بنوائے ہیں۔ کوئی ایک گھر بھی بنائے تو اْس کی نمود و نمائش کا سلسلہ بنیاد رکھنے سے شروع ہو جاتا ہے۔ مسجد میں چندہ دیتے ہوئے لوگ بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ مولوی صاحب نام لیکر رقم کا اعلان کریں۔ حدیقہ کیانی نے نہایت خاموشی سے گھر تعمیر کروائے اور اسی طرح بغیر شور شرابے کے متاثرین کو گھروں کی چابیاں دیدیں۔ یہ خبر بھی سوشل مڈیا پر چلی وگرنہ حدیقہ کیانی کی نیکی اس تشہیر کی محتاج نہیں تھی۔ اس سے پہلے 2005ئ￿ کے زلزلے میں حدیقہ کیانی نے ایک بچہ گود لیا۔ اسے ناز و نعم سے پالا۔ اب یہ بچہ حدیقہ کیانی کو ماں کہتا ہے اور بیس سال کا ہے، حدیقہ کیانی نے عظمت کا ایک باب رقم کیا ہے۔ نیکی کا راستہ کھولا ہے۔ عورت کا امیج بدلا ہے۔ حدیقہ کا آج تک کوئی سکینڈل نہیں آیا۔ حدیقہ نے ثابت کیا ہے کہ ملک و قوم کی خدمت کیسے کی جاتی ہے اور ویمن ڈے پر حدیقہ کو سلامِ عقیدت بنتا ہے۔ میرا حدیقہ کیانی سے کوئی رشتہ نہیں ہے لیکن میں حدیقہ کی فیملی کو اچھی طرح جانتی ہوں۔ حدیقہ کی ایک بہن عارفہ کیانی اور بھائی عرفان کیانی ہے۔ والدہ جلدی بیوہ ہو گئیں لیکن خوددار عورت تھیں۔ جاب کر کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ حدیقہ کی والدہ دراصل میرے سکول کی ہیڈ مسٹریس تھیں۔ میری چھوٹی بہنیں بھی اسی سکول میں پڑھتی تھیں۔ عارفہ، حدیقہ دونوں بہنیں اور انکا بھائی عرفان گانے گایا کرتے تھے۔ اکثر سکول تقریبات میں دونوں بہنیں پرفارم کرتیں اور اکثر اپنی والدہ سے ملنے سکول آ جاتیں۔ ان کی شہرت کا آغاز ہو چکا تھا۔ میری بہنیں حدیقہ اور عارفہ کے ساتھ تصویریں بنواتی یا گپ شپ کرتی تھیں۔ اس طرح مجھے کیانی فیملی کے متعلق معلومات ہوئیں۔ یہ ایک تعلیمیافتہ اور سْلجھی ہوئی فیملی تھی۔ دو بار میری بھی حدیقہ کیانی کی والدہ سے ملاقات ہوئی۔ بہت پازٹیو مائنڈ کی خاتون تھیں۔ پورا سکول ان کا گرویدہ تھا۔ ماں اچھی ہو تو بیٹی ہیرا ہوتی ہے۔ حدیقہ کیانی نے ثابت کیا ہے۔ ہمارے ہاں تشہیر بازی یعنی پروجیکشن اور پروپیگنڈہ پر سارا زور ہوتا ہے۔ عمل کے حوالے سے ہم ایک مردہ قوم ہیں۔ جاپان کی اخلاقیات دیکھ لیں یا چین کی تعمیری سوچ پرکھ لیں۔ امریکہ میں انصاف اور بنیادی حقوق دیکھ لیں یا جرمنی میں علم تہذیب، اخلاق مروت دیکھ لیں۔ ناروے کے لوگوں کی پرسکون اور خوشحال زندگی دیکھ لیں یا سعودی عرب کی چیریٹی دیکھ لیں۔ دور جانے کو چھوڑیں۔ ہندوستان کے حکمران دیکھ لیں جو ہمارے لیے انتہائی بْرے سہی مگر اپنے ملک و قوم کے لیے دیوتا ہیں۔ بھارتی عوام کو دیکھ لیں جو انتہا درجے کی محب وطن ہے۔ دراصل ہمارے ہاں خرابی سسٹم میں ہے اور سسٹم ادارے بناتے ہیں۔ اداروں کو حکمران چلاتے ہیں جہاں وہ اپنے خاص بندے تعینات کرتے ہیں۔ حکمرانوں کا چنا? عوام کرتے ہیں جن کو مہنگائی بھوک پیاس بیروزگاری اور قدرتی آفات کے ذریعے دبا کر رکھا جاتا ہے۔ حکمران اس قدر عیاش، بے حس، خودغرض، لالچی اور کم علم، کم عقل، کم ظرف ہوتے ہیں کہ اپنی ناک اور اپنے بنک بیلنس سے آگے نہ دیکھ سکتے نہ سوچ سکتے۔ یہ اقتدار کے بھوکے ہوتے ہیں۔ ہر حالت میں اپنا اقتدار، اپنا تسلط اور اپنی کْرسی چاہتے ہیں۔ جب خود بوڑھے ہو جاتے ہیں تو اپنے نالائق بیٹوں اور بیٹیوں کو اقتدار میں لے آتے ہیں۔ ہم پر اس طرح کے حکمران کیوں مسلط ہوتے ہیں۔ اس کی تین وجوہات ہیں کہ عوام کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک چور کھڑا ہے تو مقابلے میں دوسرا ڈکیت ہو گا، تیسرا سلطانہ ڈاکو ہو گا اور چوتھا بھی پاپی لْٹیرا ہو گا۔ ظاہر ہے عوام کو انہی چوروں لٹیروں میں سے کسی کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ پھر پروجیکشن کے ذریعے عوام الناس کا ذہن بدلا جاتا ہے۔ بھوکی پیاسی مفلس قلاش عوام بریانی کی ایک پلیٹ، نان کباب یا حلیم روٹی پر اپنا ووٹ قربان کر دیتی ہے۔ پھر ہزار دو ہزار کے نوٹوں پر بھی ووٹ بِک جاتا ہے۔ جس گھر میں دس گیارہ ووٹ ہوں تو بیٹھے بٹھائے دس ہزار کی دیہاڑی لگ جاتی ہے۔ اصل سوال تو الیکشن کمیشن سے بنتا ہے کہ وہ راشی، سفارشی، بلیک میلر، چور اْچکے، بدمعاش اور غنڈوں کو کیوں الیکشن میں کھڑا ہونے دیتا ہے۔ ایک آدمی کا ریکارڈ انتہائی شرمناک ہے۔ سب جانتے ہیں کہ وہ شرابی ہے زنی ہے۔ اْسکے اثاثے آمدن سے زائد ہیں۔ اْس کی ڈگری جعلی ہے۔ اْسکا کردار خراب ہے۔ وہ جھوٹا اور فاسق ہے۔ منافق اور راشی ہے۔ اْس نے اپنی پراپرٹی چھپائی ہے۔ اْس نے شادیاں اور بچے چھپائے ہیں۔   پھر کئی لوگ اخلاقی اور مالی کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں۔ بطور رکن اسمبلی یا وزیر، وزیر اعلیٰ وزیر اعظم اْس کی کارکردگی ناقص رہی ہے۔ پھر بھی الیکشن کمیشن اْسے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ 
مثال کے طور پر عمران خان نے چار سال مسلسل ملک کو تباہ برباد کیا۔ آج سے پانچ سال پہلے کا پاکستان دیکھیں تو ایک ہرا بھرا ملک تھا۔ ہر طرف سکون اور خوشیاں تھیں لیکن ان پانچ سالوں میں پاکستان صومالیہ، ایتھوپیا اور سری لنکا سے بھی نیچے گر گیا ہے۔ عمران خان کہتا رہا کہ جی دس ارب درخت لگائے ہیں۔ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنا?ں گا لیکن اس آدمی نے لوگوں کا رزق چھین لیا۔ لوگوں کے سروں سے چھت چھین لی۔ لوگ غربت کی سطح پر آ گئے۔ اس آدمی نے ملک اور عوام کے لیے ایک کام نہیں کیا۔ ہیلی کاپٹر کی سیروں میں اربوں روپیہ گارا مٹی کر دیا۔ ملکی خزانہ کھا گیا۔ چندے زکوٰتیں، امدادیں قرضے تک کھا گیا۔ توشہ خانے کی چیزیں کھا گیا۔ ملک پر کھربوں روپے کے قرضے چڑھا گیا۔ صوبہ خیبر پختونخواہ برباد کر دیا۔ شوکت خانم تک کے فنڈز، زکوٰۃ خیرات اور مریضوں کے دئیے ہوئے پیسے کھا گیا۔ اس آدمی کی عمر 72 سال اور 74 مقدمات ہیں۔ بیٹی ٹیریان کو تسلیم نہیں کرتا۔ پورے ملک میں انارکی پھیلا رکھی ہے۔ کوئی مر جائے، زلزلہ آ جائے، بم پھٹ جائے، حادثہ ہو جائے لیکن یہ آدمی تعزیت کے لیے نہیں جاتا۔ پانچ ماہ پلستر چڑھائے پھرتا رہا ہے جو ایک بہت بڑا ڈرامہ ہے۔ اب جیسے ہی الیکشن کا اعلان ہوا ہے تو یہ جلسے کی قیادت کر رہا ہے۔ پلستر اْتر گیا ہے لیکن عدالت جاتے ہوئے پلستر چڑھ جاتا ہے اور جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اس آدمی نے ساری نوجوان نسل کو تباہ کر دیا ہے۔ ملک کا کلچر برباد کر دیا ہے۔ ہر وقت گندے رکیک الزامات لگاتا ہے۔ اس کی زبان نہایت پلید ہے۔ اس کے باوجود اگر الیکشن کمیشن اس آدمی کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسی طرح دوسری پارٹیاں ہیں جن کا سابقہ ریکارڈ اس لائق نہیں کہ وہ الیکشن لڑیں۔ آخر الیکشن کمیشن کا کیا ضابطہ اخلاق ہے کہ جو لوگ پورا ملک ڈکار جائیں، قرضے کھا جائیں، کرپشن کرتے جائیں۔ اْن کو ہی الیکشن کمیشن ہنسی خوشی اجازت دے دیتا ہے۔ اب صرف اہل اور قابل لوگ لائیں۔ الیکشن کمیشن کے آخر کیا اصول و ضوابط ہیں؟ کیا شرائط اور کیا ہیں معیار ہیں  ہر کرپٹ آدمی کو الیکشن کمیشن آگے لے آتا ہے۔ دیانتدار، محنتی، متوسط، تعلیمیافتہ، باکردار اور اپنی اپنی فیلڈ میں ملک و قوم کی خدمت کرنے والوں کو موقع دیں۔ یاد رکھیں! پاکستان کی تقدیر تب بدلے گی جب حدیقہ کیانی جیسے محب وطن اور خدمت گزار لوگ ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔ اگر عوام نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پاکستان کو کون بچائے گا۔ ایسے الیکشن کا بائیکاٹ کریں جو کرپٹ افراد کو موقع دے۔ خدا را اپنی ترجیحات بدلیں، اپنی عقل سے سوچیں۔

ای پیپر دی نیشن