الا ما شا اللہ آج کے مادر پدر آزاد زمانے میں بھی حیادار مشرقی روایات کی پاسبان بیٹیاں موجود ہیں مگر پاکستان میں اخلاقی اقدارکا جس تیزی سے دیوالیہ نکل رہا ہے انتہائی خوفناک صورتحال بن رہی ہے۔رب چاہتا تو آدم کی بجائے حوا کو پہلے تخلیق کر دیتا جبکہ کائنات آدم کے لئے وجود میں لائی گئی۔عورت ماں بنے تو پیروں تلے جنت رکھ دی اور باپ کو جنت کا دروازہ قرار دے دیا۔ جنت میں داخل ہونے کے لئے ہر مرد و زن کو دروازے سے گزرنا ہوگا۔ بات اگر ظاہری حسن کی ہے توعورت کا حسن میک اپ کا محتاج ہے۔مرد بغیر منہ دھوئے بھی رشتے کے لئے قبول کر لیا جاتاہے بس جیب حسین ہونی چاہئے۔ امیر اور سیٹل مرد کی شکل اور حسن کون دیکھتا ہے؟ لہٰذا برابری کی بحث نفسیاتی عورتوں کا مسئلہ ہے مشرقی عورت کا نہیں۔ مشرقی اقدار میں پروان چڑھنے والی عورت اپنے حقوق مقام اور ذمہ داریوں کا بخوبی ادراک رکھتی ہے ،اسے عورت کا دن یا مارچ کرنیکی حاجت محسوس نہیں ہوتی۔ مرد ہی ہراس harass نہیں کرتا عورت بھی مختلف طریقوں سے مرد کو ہراس کرتی ہے۔گناہ ثواب نیکی بدی میں عورت مرد برابر کی چوٹ ہیں البتہ ذمہ داریاں اور جسمانی و جذباتی ساخت مختلف ہے۔ رب کی تخلیق رب کی مرضی۔مشرقی عورت کا نام آتے ہی شرم و حیا کا تصور ابھر آتا ہے۔پاکستان اور بھارت علیحدگی سے پہلے’’ ہندوستان‘‘ ہواکرتے تھے۔ ہندوستان کا پنجاب سانجھا ہوا کرتا تھا۔ پھر وقت نے انگڑائی لی اور ہندوستان کا پنجاب بھی تقسیم ہو گیا۔ جغرافیائی تقسیم تو ہو گئی مگر ہندوستان کے پنجاب کی ثقافت تقسیم نہ ہو سکی۔آج بھی جاٹ برادری کا تعلق خواہ سکھوں سے ہے یا مسلمانوں سے ان کی ثقافت نے انہیں قریب کر رکھا ہے۔انسانوں کو قریب لانے میں ثقافت کا ہمیشہ اہم کردار رہا ہے۔ پنجاب کی ثقافت کا اصل حسن اس کے صوفی اور اس کی ’’دھی رانی‘‘ (بیٹی) ہے۔ پنجاب کی’’ دھی‘‘ عصمت اور غیرت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ پنجاب کا حسن اس کی بیٹی کی حیاء سے منسوب ہے۔ بابل کے ویہڑے میں اچھلتی کودتی دھی رانی ایک روز اچانک لال جوڑے میں ملبوس جب ڈولی میں بیٹھنے لگتی ہے تو باپ اس کے سر پر دست شفقت رکھتا ہوا کہتا ہے ’’ دھیے ! ’تو اتنی بڑی ہو گئی اور مجھے خبر بھی نہ ہوسکی ‘ اور ماں دھی رانی کو سینے سے لپٹاتے ہوئے رو دیتی ہے کہ ’ماں صدقے جائے ! میں نے تمھاری تربیت میں سختی برتی کہ اگلے گھر جانا ہے مجھے معاف کر دینا‘ اور بھائی اپنے آنسو اپنے حلق میں ہی انڈیل کر منہ پھیر لیتا ہے کہ کہیں بہن اسے کمزور پڑتا دیکھ کر اس کی باہوں میں ڈھیرنہ ہو جائے۔ شرم و حیاء میں پلی بڑھی پنجاب کی یہ دھی رانی ماں باپ اور بھائیوں کی لاج اور لاڈ کو اپنے لال دوپٹے کے پلو میں باندھ کر زور سے گرہ لگا لیتی ہے۔ دھی رانی کی زندگی کا ہر فیصلہ اس کے باپ اور بھائی کرتے ہیں اوروہ ان کے ہر فیصلے پر سر جھکا دیتی ہے۔اس کی رضا اس کے باپ اور بھائی کی مرضی میں پنہاں ہوتی ہے۔ شادی کا ارمان دھی رانی کے حیادار آنچل کے پلو سے اس وقت تک بندھا رہتا ہے جب تک اس کا بھائی اس کے لیے کوئی مناسب دولہا تلاش نہیں کر لیتا۔ بھائی کا دبدبہ اور باپ کا رعب دھی رانی کی پرورش میں نکھار پیدا کر تا ہے جبکہ ماں پہلے روز سے دھی رانی کو اگلے گھر کی تربیت دینے پر مامور ہو جاتی ہے۔لیکن اس روز ماں کی پلکوں سے آنسو برسات بن کر برسنے لگتے ہیں، جس روز دھی رانی اگلے گھر وداع ہونے لگتی ہے۔اس روز پنجاب کی ماں کو احساس ہوتا ہے کہ اگلے گھر کی تربیت میں وہ بیٹی کو دل بھر کر لاڈ بھی نہ کر سکی کہ مبادہ بگڑ جائے۔ ماں اور بیٹی میں یہ فاصلہ تربیت نے حائل کر رکھا تھا ، یہ وہی فاصلہ ہے جو باپ اور بیٹے کے درمیان بھی برقرار رہا، حتیٰ کہ بیٹا ایک روز خود باپ بن گیا۔ اس روز باپ نے بیٹے کے کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا ’پتر ! آج تو بھی باپ بن گیا ہے ،اب تمہیں بھی باپ کے جذبات کا ادراک ہو جائے گا‘۔ہندوستان کا پنجاب تقسیم ہو گیا۔ ہر سو کہرام مچ گیا۔ پنجاب کی دھی رانی نے اپنی عصمت کی خاطر کنویں میں چھلانگ لگا دی، اپنے ہاتھوں سے خنجر اپنے پیٹ میں اتار لیا لیکن پلو سے بندھی عصمت کی گرہ کھولنے کی اجازت نہ دی۔کیا آج پنجاب کی دھی نے تقسیم ہند کی بیٹیوں کی لاج سنبھال کر رکھی ہے ؟پنجاب کی دھی نے قیام پاکستان کے لئے جان دی تھی ، پاکستان تو بن گیا مگر ستر برس بعد ماشا اللہ دھی کا تیور بدل گیا۔ مشرقی اقدار روایات ‘‘ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا ‘‘ کی نذر ہو گیا۔کاروباری عورت میرا جسم میری مرضی کی کمائی کھانے لگی۔اخلاقیات شرم و حیا عصمت غیرت کا جنازہ ہی نکال دیا۔ مرد کون ہوتا ہے ہمیں اچھا برا سمجھانے والا جیسی بکواسیات بکنے لگی۔ مرد ‘‘ محمد رسول اللہؐ ‘‘ ہوتا ہے تمہیں اچھے برے کی تمیز بتانے والا۔کلمہ گو عورت میں جسارت ہے تو اس مرد عظیم کی تعلیمات سے بغاوت کر کے ‘‘ مرتد’’ کا تمغہ پہنے اور پھر ‘‘ میرا جسم میری مرضی ‘‘ کا نعرہ لگائے۔ کائنات کا حسن بنے۔ بد صورتی مت بنے۔