اصغر علی شاد
بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کے اندر ریشہ دوانیوں کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اس کی ایک طویل تاریخ ہے اور انہی مکروہ سازشوں کے ذریعے وطنِ عزیز کو دو لخت بھی کیا جا چکا ہے۔ جس کا اعتراف آٹھ جون 2015 کو مودی نے اپنے دورہ بنگلہ دیش کے دوران کھلے عام کیا تھا۔ اس کے علاوہ سابق ہندوستانی وزیر دفاع اور گوا کے آنجہانی وزیر اعلیٰ’’منوہر پریارکر‘‘ بھی کہہ چکے تھے کہ بھارت پاکستان کے متعلق کانٹے سے کانٹا نکالنے والی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور اس کو جاری رکھے گا۔ بہر کیف ان تمام سازشوں کے باوجود ہندوستان عالمی برادری کے سامنے خود کو معصوم اور دودھ سے دھلا قرار دیتا نہیں تھکتا اور دنیا کے اکثر ملک بھی نہ صرف دہلی کے ان دعووں پر یقین کرتے ہیں بلکہ اپنے گناہ چھپانے کی اس بھارتی روش کی تائید اور حمایت بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مگر بالآخر سچ کو تو سامنے آنا ہی ہوتا ہے تبھی ’’را‘‘ کا حاضر سروس افسر ’’کل بھوشن یادو‘‘ سات برس قبل بلوچستان میں گرفتار کر لیا گیا۔
موصوف نے دورانِ تفتیش اپنی تمام کارستانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ وہ انڈین نیوی میں کمانڈر کے عہدے پر فائز تھا۔ یاد رہے کہ نیول کمانڈر کا منصب فوج کے لیفٹیننٹ کرنل کے مساوی ہوتا ہے۔ انڈین نیوی میں اس کا سروس نمبر ’’41558‘‘ ہے اور وہ 16 اپریل 1970 کو پیدا ہوا اور 1991 میں اس نے بھارتی بحریہ میں کمیشن حاصل کیا۔ کچھ عرصے بعد نیول انٹیلی جنس میں چلا گیا۔ اس کی اچھی کارکردگی کی بنا پر اس کو را میں شامل کر لیا گیا اور پاکستان میں ’’کور ایجنٹ‘‘ کے طور پر کام کرنے کے لئے اسے منتخب کیا گیا، اس کا مسلمان نام ’’حسین مبارک پٹیل‘‘ رکھا گیا تھا۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر اس کو نہ صرف اسلام کی بنیادی تعلیمات دی گئیں بلکہ جسمانی طور پر بھی مسلمان ظاہر کرنے کے لئے اس کے ختنے وغیرہ بھی کیے گئے تا کہ کسی بھی مرحلے پر اس کی ہندوانہ اصلیت ظاہر نہ ہو سکے۔
اسی مسلمان نام پر اس کو پاسپورٹ جاری کیا گیا جس کا نمبر ’’ایل 9630722‘‘ ہے۔ اور پھر اس کو بلوچستان سے متصل ایرانی ساحلی شہر ’’چاہ بہار‘‘ میں را نے جیولری کی دکان کھول کر دی لیکن اس کا اصل کام بلوچستان آ کر اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کراچی، بلوچستان میں علیحدگی پسند اور فرقہ وارانہ دہشتگردی کی وارداتیں انجام دینا تھا۔ کئی برسوں سے وہ یہ سب کچھ کرتا آ رہا تھا۔ وہ بلوچستان میں دہشتگردی کی مسلح تحریک کی ہر طرح سے سر پرستی کر رہا تھا اور اس ضمن میں کئی دوسرے غداروں کے علاوہ ’’حاجی بلوچ‘‘ نامی آدمی اس کا بڑا مہرہ تھا جس کے ذریعے وہ ’’مالی‘‘ اور ’’لاجسٹک‘‘ امداد دہشتگرد تنظیموں کو فراہم کرتا تھا۔ وہ اسی حوالے سے کراچی میں داعش کے قیام کی کوشش بھی کر تا رہا اور سانحہ صفورا میں بھی پوری طرح ملوث تھا جس میں تقریباً پچاس نہتے شہری شہید ہو گئے تھے۔ یوں اسے محض جاسوس قرار دینا صحیح نہیں کیونکہ وہ در حقیقت اپنی سر پرستی میں دہشتگردی کا پورا نیٹ ورک چلا رہا تھا۔
جرمنی، امریکہ، روس، چین، فرانس اور برطانیہ سمیت سبھی عالمی قوتوں کو اس بابت پاکستان نے ٹھوس ثبوت بھی فراہم کر رکھے ہیں۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے خصوصاً ’’را‘‘ اور ’’آئی بی‘‘ (انٹیلی جنس بیورو) پاکستان کے خلاف براہ راست دہشتگردی میں ہمیشہ سے ملوث رہے ہیں۔ اس ضمن میں یہ امر زیادہ قابلِ توجہ ہے کہ پاکستان سے متعلقہ را کے ٹارگٹ ایریا میں ایک ’’علیحدہ ’’بلوچی ڈیسک‘‘ بنایا گیا۔ یوں بلا تردید کہا جا سکتا ہے کہ بلوچستان یا پاکستان کے دیگر علاقوں میں را کی سر گرمیاں محض ماضی قریب میں ہی شروع نہیں ہوئیں بلکہ اس سلسلے کی کڑیاں پچاس برس سے زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی ہیں۔
یاد رہے کہ ستمبر 1968 میں را کا قیام عمل میں آیا تھا اور ا س کا پہلا سربراہ ’’رامیشور ناتھ کاؤ‘‘ تھا اور اسے سب سے پہلے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا مشن سونپا گیا تھا جسے اس نے کامیابی سے انجام دیا۔ اور اس کے بعد’’را‘‘ نے سکم پر بھارتی قبضے کے علاوہ بھوٹان، نیپال، بنگلہ دیش میں بھی مسلح مداخلت کی روش اختیار کر لی۔ اس کے ساتھ ساتھ kbj النگو‘‘ کو سری لنکا کے معاملات میں مداخلت کی وجہ سے ملک بدر کر دیا گیا۔بھارتی شورشوں کا یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ یہاں اس امر کا ذکر بھی شاید غیر اہم نہ ہو کہ ہندوستان کے موجودہ قومی سلامتی کے مشیر ’’اجیت ڈووال‘‘ بھی ’’کل بھوشن یادو‘‘ کی مانند 1980 سے 1988 تک مختلف بہروپ میں لاہور اور اسلام آباد میں ’’کام‘‘ کرتے رہے۔ بعد میں ان کو انڈین انٹیلی جنس بیورو کا سربراہ مقرر کیا گیا جہاں وہ جنوری 2005 تک اس عہدے پر فائز رہے۔
اس کے علاوہ سمجھوتہ ایکسپریس دہشتگردی میں انڈین آرمی کے حاضر سروس کرنل پروہت اور ’’میجر اپادھیا‘‘ کا کردار بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اور پھر انڈین آرمی کی خصوصی دہشتگرد بٹالین ’’ٹی ایس ڈی‘‘ کے ہیڈ لیفٹیننٹ کرنل بخشی کا کردار بھی ڈھکا چھپا نہیں۔گذشتہ عرصے سے اس بابت ہندو ستانی میڈیا نے جس طرح چپ سادھ رکھی ہے، اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کا میڈیا کس حد تک آزاد ہے وگرنہ یہی صورتحال اگر پاکستان میں در پیش ہوتی تو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے اب تلک کلبھوشن یادو کے گھر کے ایڈریس پر جا کر اس کا پورا شجرہ نسب کھنگال ڈالا ہوتا۔ مگر بھارتی میڈیا اور سول سوسائٹی کی خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ اپنی قومی سلامتی کے ضمن میں انھوں نے کچھ حدود مقرر کر رکھی ہیں۔ جس میں وطنِ عزیز کے میڈیا کے لئے بھی بہت کچھ پنہاں ہے۔حالانکہ پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کلبھوشن جھادو کی ماں اور اہلیہ کو بھی اس سے ملاقات کی اجازت دی تھی۔
ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان کل بھوشن یادو کی کارستانیوں سے متعلقہ تمام دستاویزی ثبوت نہ صرف فوری طور پر دنیا بھر کے میڈیا کے سامنے لائے گی بلکہ سفارتی سطح پر بھی اس حوالے سے انتہائی موثر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اور دنیا بھر کو بھارت کی اس مکروہ روش سے آگاہ کیا جائے تا کہ عالمی برادری محض پاکستان کو ایٹمی اثاثوں اور دیگر حوالوں سے نصیحتیں دینے کی جو روش اپنائے ہوئے ہے، اس پر نظر ثانی کر کے دہشتگردی کے اصل سرپرست بھارت کو قانون اور انصاف کے شکنجے میں لانے کی سعی کرے۔