چودھری محمد سرور نئی اننگز کے لیے تیار؟؟؟؟


ملک میں نئے انتخابات کے حوالے سے مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے ہر حال میں فوری طور پر عام انتخابات کا مطالبہ ہے اور اس مطالبے میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف حکومت میں شامل جماعتیں فوری انتخابات کے حق میں نہیں ہیں وہ ناصرف فوری انتخابات کی مخالفت کر رہی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے بھی گفتگو سننے کو مل رہی ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ فضل الرحمان کہتے ہیں کیا اسمبلیاں وزرائے اعلیٰ نے توڑی ہیں یا ایک لیڈر کے حکم پر عمل کیا گیا کیا پولیس اور اداروں میں الیکشن میں سکیورٹی دینے کی صلاحیت ہے۔ غریب کو روٹی میسر نہیں اور تقاضہ کیاجا رہا ہے کہ اسی ارب الیکشن کمیشن کو دیے جائیں، ریاست کو بھی دیکھا جائے اور غریب آدمی کو بھی دیکھا جائے، ملک میں امن و امان کی صورتحال انتخابات کے لیے سازگار نہیں۔ مولانا کی اس بات میں وزن ہے کہ حالات اتنے اچھے نہیں ہیں بالخصوص امن و امان کی صورتحال پر کوئی بھی سمجھوتہ کسی صورت نہیں ہونا چاہیے۔ ریاست کا مفاد سب سے اہم، سب سے پہلے اور سب سے مقدم ہے اس لیے ریاست کے مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کسی کو غریب کی روٹی کا دکھ اور اس کا فکر ہے تو پھر اسے صرف انتخابات کے اخراجات کو وجہ نہیں بنانا چاہیے بلکہ حکومتی اخراجات، وزیران کرام اور مشیران کرام پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی بھی لانے کی ضرورت ہے۔ ایسی ہی نامناسب بات شیخ رشید نے بھی کی ہے انہیں میاں نواز شریف کا مہنگے ہوٹلوں میں جانا گراں گذرتا ہے لیکن کیا ان کا اپنا طرز زندگی شاہانہ نہیں ہے۔ کیا ان کا سگار عام آدمی کا دل نہیں چیرتا،کیا ان کا طرز زندگی وسائل سے محروم افراد کے احساس محرومی میں اضافہ نہیں کرتا۔ ایسی ہی بات مولانا فضل الرحمن نے بھی کی ہے۔ اس ملک میں سب سے آسان احساس محرومی سے فائدہ اٹھانا اور اس بنیاد پر لوگوں کے جذبات کو بھڑکانا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے بھی الیکشن کے 80 ارب خراجات کو عام آدمی کی روٹی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے جو کہ نا مناسب ہے صرف الیکشن کے اخراجات کا بوجھ نہیں ہے حکمرانوں کی عیاشیوں کا وہ بھی عام آدمی ہی اٹھاتا ہے ہے جبکہ اس کے ساتھ جو بات شیخ رشید نے میاں نواز شریف کے مہنگے ہوٹلوں میں جانیکی کے حوالے سے کی ہے ہے نہایت مناسب ہے تو مذمت ہونی چاہیے کیونکہ شیخ رشید اسمبلی میں جس جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور آج بھی اسی جماعت کے ساتھ ہیں وہ تمام لوگ بھی لگ بھگ انہیں ہوٹلوں میں جاتے ہوں گے یا وہی لباس پہنتے ہوں گے  اس لئے براہ کرم جتنے بھی لوگ پاکستان میں سیاست کر رہے ہیں ہیں انہی کے احساس محرومی سے فائدہ اٹھانے اور وسائل سے محروم افراد کے جذبات کو بھڑکانے کے بجائے آئے مثبت تعمیری میری اور عوام کی فلاح و بہبود کے کے حوالے سے گفتگو کرنے کا رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
 جب انتخابات کی بات ہوتی ہے تو پھر سیاسی جماعتوں میں اکھاڑ پچھاڑ، جوڑ توڑ آمد اور روانگی کی باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں۔ انتخابات کے ماحول میں بہت سے لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے ہیں جاتے ہیں، اہم عہدے دیئے جاتے ہیں، کسی کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں کسی کے ساتھ وعدہ نبھایا جاتا ہے ہے اور کسی کو استعمال کرنے کے بعد دیوار سے لگا دیا جاتا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی اور ان کے ساتھی چودھری شجاعت حسین اور مسلم لیگ قاف کو چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس روانگی کا آنے والے دنوں میں پرویز الہی کو فائدہ ہوتا ہے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے لیکن میں ان کے بہتر سیاسی مستقبل کے لیے دعا گو ہوں۔ چودھری پرویز الٰہی کے جانے کے بعد مسلم لیگ ق میں ایک بڑی تبدیلی آنے والی ہے اور اس تبدیلی میں باخبر دوستوں کے مطابق چودھری سرور اور بہت جلد چودھری شجاعت حسین کے ساتھی بن جائیں گے اور آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ق کو چلاتے ہوئے نظر آئیں گے یعنی ان کا کردار مسلم لیگ ق میں بہت اہم ہو گا۔  چودھری محمد سرور اور چوہدری سالک حسین کا کردار بھی اہم ہو سکتا ہے۔ چودھری محمد سرور اور مسلم لیگ ق میں شامل ہوتے ہیں تو اس کے بعد یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان مسلم لیگ نون اور دیگر سیاسی جماعتوں سے وہ تمام افراد جو خود کو مس فٹ سمجھتے ہیں یا ان کے اعلی قیادت سے اختلافات ہیں یا انہیں آگے بڑھنے کا موقع نہیں مل رہا یا انکا راستہ روکا جا رہا ہے وہ لوگ لوگ مسلم لیگ ق میں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ چودھری محمد سرور اور چودھری سالک حسین دیگر سیاسی جماعتوں کے ایسے افراد کو قائل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ وہ پاکستان کی کی تمام سیاسی جماعتوں میں اچھے رابطہ رکھتے ہیں۔ چودھری محمد سرور کے آنے سے ق لیگ کو یہ فائدہ ضرور ہو گا کہ دیگر سیاسی جماعتوں یا سیاسی منظر نامے سے غائب نمایاں افراد بھی دوبارہ سیاسی میدان میں آ سکتے ہیں۔ سیاسی لوگ چودھری محمد سرور کی قدر کرتے ہیں وہ ایک عوامی شخصیت ہونے کی وجہ سے پاکستان کے عام آدمی کے لیے بھی کشش ضرور رکھتے ہیں،جہاں بیٹھتے ہیں عام آدمی کی بات کرتے ہیں، عام آدمی کے گلے شکوے سنتے اور انہیں حل کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف چودھری سالک حسین سیاسی لوگوں سے بہتر رابطے، بہتر سیاسی سوچ کی وجہ سے وہ مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ چودھری سالک حسین حقیقی طور پر چودھری شجاعت حسین کی تحمل مزاجی اور مفاہمت کی سیاست کی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ جتنے بھی سیاست دانوں کی اولادیں سیاسی میدان میں ہیں چودھری سالک حسین سب سے منفرد اور بہتر سیاسی رویے اور سوچ کے حامل ہیں۔ وہ تعلق قائم کرنے اور اسے نبھانے کی بھی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں سیاستدانوں کی اولادوں میں سے چودھری سالک حسین ان سب سے زیادہ سلجھے ہوئے،  مہذب سب سے بہتر سیاسی سوچ، بہتر سیاسی گفتگو اور بہتر سیاسی رویہ  رکھتے ہیں۔ جذبات پر بھی قابو رکھتے ہیں۔ جذباتی گفتگو کی بچائے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہیں۔ لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی عادت انہیں اپنے والد چودھری شجاعت حسین سے ملی ہے۔ 
 چودھری محمد سرور کی مسلم لیگ ق میں شمولیت سے جماعت مضبوط ہو سکتی یے اور ملکی سطح پر فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور کچھ نہیں تو کم از کم دو ہزار اٹھارہ والی پوزیشن پر بھی آتی ہے تو بڑی کامیابی ہو گی۔ چونکہ آئندہ عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی طرف سے بھی امیدواروں کے سلسلہ میں جگہ اور حمایت ضرور ملے گی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...