بخشش اور مغفرت


علامہ منیر احمد یوسفی 
اُمُّ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے‘ فرماتی ہیں‘ رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ  میرے حجرئہ مبارک میں کملی اوڑھے آرام فرما رہے تھے‘ شعبان المعظم کی پندرہویں شب تھی۔ آپؐ کملی سے باہر تشریف لائے۔ آپؓ  فرماتی ہیں میری کملی ابریشم قنزو کتان، خز اور سوت کے کپڑے سے نہ تھی یہ سب عمدہ ریشمی کپڑوںکی قسمیں ہیں‘ آپ فرماتی ہیں‘ وہ بکری کے بال کی تھی اور اُونٹ کے بال بھی اِس میں ملے ہوئے تھے۔ پچھلی رات رسولِ کریمؐ کو بستر پر نہ پا کر میں پریشان ہوئی اور خیال کیا شاید اپنی اَزواج مطہراتؓ  میں سے کسی کے ہاں تشریف لے گئے ہیں چنانچہ میں اُٹھی پہلے اپنے حجرہ مبارک میں آپؐ کو تلاش کرنے لگی۔ میرا ہاتھ رسولِ کریم ؐ کے پائوں مبارک کو لگ گیا۔ اُس وقت آپؐ سجدہ انور میں تھے اور دُعا فرما رہے تھے۔ میں نے یہ دُعا حفظ کرلی ۔ آپؐ  نے نہایت شانِ عبدیت کے ساتھ بارگاہِ صمدیت میں عرض کیا۔ 
’’سجدہ کیا تیرے حضور میری آنکھوں کی سیاہی اور میرے خیال نے اور میرا دِل تیرے ساتھ اِیمان لایا۔ تیری نعمتوں کو قبول کیا (اپنے رب کے حضور اِنتہائی اِظہارِعاجزی کرتے ہوئے عرض کیا) اپنی تاریکی گناہ پر تیرے حضور اِقرار کرتا ہوں‘‘ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، مجھے بخشش (کے تحفے) عطا فرما۔سوائے تیرے ، گناہوں کا کوئی بخشنے والا نہیں‘ میں تیرے عذاب سے تیری معافی کی پناہ ڈھونڈتا ہوں اور تیرے غضب سے تیری رضا مندی کی پناہ تلاش کرتا ہوں۔ میں تیری حمدو ثناء کو شمار نہیں کر سکتا۔ جیسے تو نے خود اپنی ثناء کی ہے ‘‘۔ (مجمع الزوائد جلد 2 ص 128، درمنثور جلد 7 ص 404، کنز العمال حدیث نمبر19812۔) اُم المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتی ہیں‘ رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ  میرے ہاں تشریف فرما ہوئے‘ آپؐ کے لئے بستر بچھایا گیا۔ مگر آپؐ  نے بستر پر آرام نہ فرمایا۔ آپؐ  میرے حجرہ (اَنور) سے نکلے، میں نے خیال کیا آپؐ کسی اور زوجہ مطہرہؓ  کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ میں بھی آپؐ کے پیچھے نکلی مگر میں نے آپؐ  کو (جنت) البقیع میں پایا۔ وہاں آپؐ  مومن مردوں اور مومنہ عورتوں اور شہداء کی بخشش کے لئے اِستغفار فرما رہے تھے۔ تو میں نے (رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ  سے دِل میں) عرض کیا یا رسولؐ  میرے ماں باپ آپؐ  پر قربان ہوں، آپؐ تو اللہ کے کام میں لگے ہیں اور میں دنیوی حاجت میں ہوں ۔میں واپس لوٹی اور اپنے حجرے میں آگئی اور میرا سانس پھولا ہوا تھا۔ پھر رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ تشریف لائے اور مجھے ملے اور فرمایا: اے عائشہؓ یہ سانس کیسا ہے؟ میں نے عرض کیا‘ میرے ماں باپ آپؐ  پر قربان ہوں، آپؐ میرے ہاں تشریف لائے۔ میں نے آپؐ کے آرام کے لئے بستر بچھایا مگر آپؐ نے آرام نہ فرمایا اور باہر تشریف لے گئے تو میںنے گمان کیا شاید آپؐ کسی اور زوجہ مطہرہؓ  کے ہاں تشریف لے گئے مگر میں نے آپؐ  کو (ڈھونڈنے کے بعد) جنت البقیع میں پایا، وہاں جو آپؐ عمل مبارک فرما رہے تھے اُسے ملاحظہ کیا: (اور پھر میں جلدی جلدی واپس آگئی اِس لئے میرا سانس پھولا ہوا ہے) رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ  نے فرمایا: کیا تمہیں اِس بات کا خوف ہوا کہ اللہ اور اُس کا رسولؐ   تجھ پر ظلم کریں گے؟ میرے پاس حضرت جبرائیل امین حاضر ہوئے اور عرض کیا یہ شعبان المعظم کی پندرھویں رات ہے۔بے شک اللہ اس رات اپنے بندوں پر خصوصی نگاہ کرم فرماتا ہے۔ رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتا ہے اور کینہ پروروں کو انکی حالت پر چھوڑ دیتا ہے‘‘۔(ابن ماجہ ص 100)  پھر آپؐ  نماز کے لئے کھڑے ہوئے، بعد ازیں طویل سجدہ فرمایا، جس سے مجھے اَندیشہ ہوا شاید آپؐ کی روح پرواز کر گئی ہے تو میں نے آپؐ  کے نورانی پائوں مبارک کے تلوے مبارک کو ہاتھ لگایا تو آپؐ  نے اُسے ہلایا اور مجھے بہت فرحت حاصل ہوئی۔ پھر میں نے آپؐ  کو سجدہ میں دُعا کرتے سنا :اَعُوْذُ بِعَفُوِّکَ مِنْ عَقَابِکَ وَاَعُوْذُ بِرَضَاکَ مِنْ سُخْطِکَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ اِلَیْکَ لَا اَحْصٰی ثَنَآئُ عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ  ۔ اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ  فرماتی ہیں پھر صبح ہوئی تو میں نے اِن دُعائیہ کلمات کا آپؐ سے ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا کیا تو نے اِن کلمات کو سیکھ لیا؟ عرض کیا جی ہاں ! یا رسول اللہؐ  فرمایا: تم خود بھی سیکھ لو اور اوروں کو بھی سکھلا دو۔ کیونکہ حضرت جبرائیل  نے اللہ کی طرف سے مجھے یہ کلمات بتائے اور عرض کیا کہ میں اِن کلمات کو سجدہ میں پڑھوں‘‘۔ 
( الترغیب والترہیب جلد 3 ص 460‘  )
حضرت عثمان بن مغیرہ بن اخنسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے:’’شعبان المعظم میں اگلے شعبان المعظم تک کے تمام کام مقرر کر دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ جس کا نکاح ہونا ہے اور جس نے مرنا ہو اُس کا نام (زندوں سے) مرنے والوں میں علیٰحدہ کیا جاتا ہے‘‘۔   اس رات بھی بدکار اور شرک کرنے والے کے لئے عطا کا دروازہ بند رہتا ہے۔حضرت عثمان بن ابی العاصؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم رؤف ورحیمؐ  نے اِرشادِ مبارک  فرمایا: ’’جب شعبان (المعظم) کی پندرہویں رات ہوتی ہے۔ تو ایک منادی ندا کرتا ہے،ہے کوئی بخشش مانگنے والا کہ اُسے بخشا جائے، ہے کوئی سائل کہ اُسے عطا کیا جائے۔ پس سائل جو کچھ بھی مانگتا ہے اُس کو عطا فرمایا جاتا ہے‘ سوائے زانیہ عورت (اور مرد) اور شرک کرنے والے کے‘‘۔  
٭… قیام شبِ برأت اور روزہ:
امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓ  سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہؐ نے فرمایا:’’جب شعبان المعظم کے مہینے کی پندرہویں شب ہو تو اُس رات کو قیام کرو ، عبادت کرو اور اُس کے دن میں روزہ رکھو اِس لئے کہ اِس رات اللہ جل شانہ غروبِ آفتاب سے آسمان دُنیا پر نزولِ اَجلال فرماتا ہے ۔  امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:  ’’میں نے رسول اللہؐ کو دیکھا آپ شعبان المعظم کی پندرہویں شب کھڑے ہوئے اور آپؐ نے چودہ رکعتیں نماز پڑھی۔ آپؐ  نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے پھر آپؐ نے 14 بار سورۃ الفلق ، 14 مرتبہ سورۃ الناس اور ایک مرتبہ آیت الکرسی پڑھی اور ایک مرتبہ لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ (التوبہ : 128)  کی تلاوت فرمائی۔ جب آپؐ فارغ ہوئے تو امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓ   فرماتے ہیں‘ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ اُس شخص کے لئے کیا حکم ہے جو اِس طرح نماز ادا کرے؟ تو رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ  نے فرمایا‘ جو اِس طرح نماز پڑھے جیسے تو نے مجھے دیکھا ہے تو اِس کے لئے بیس حج مبرور اور بیس سال کے روزوں کا ثواب ہے اور اگر اِس رات کے بعد دن میں روزہ رکھے تو دو سال کے روزوں کا اُس کے لئے ثواب ہے۔ ایک سال ماضی کا اور ایک سال مستقبل کا۔  
٭… صلاۃ الخیر:
شعبان المعظم کی پندرہویں رات ایک نماز پڑھی جاتی ہے۔ اِس کو صلاۃ الخیر ’’ یا نماز خیر‘‘ کہتے ہیں۔ اِس کی سو رکعتیں ہیں جن میں ہزار مرتبہ سورۃ الاخلاص شریف پڑھی جاتی ہے با یں انداز کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ شریف کے بعد 10 مرتبہ سورۃ الاخلاص شریف ، یہ نماز دو دو رکعت کر کے پڑھی جاتی ہے۔ چار چار رکعت کر کے بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ مگر چار رکعت کی صورت میں یہ بات یاد رکھیں کہ جب دو رکعت پڑھ کر بیٹھیں تو التحیات پڑھنے کے بعد دُرود شریف اور دُعا بھی پڑھیں اور جب تیسری رکعت شروع کریں تو پہلی رکعت کی طرح اِس میں بھی ثناء پڑھیں لیکن اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ نہ پڑھیں۔ حضرت حسن بصریؐ فرماتے ہیں:-  حَدَّثَنِیْ ثَلَاثُوْنَ فِیْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِؐ اَنَّ مَنْ صَلّٰی ھٰذِہٖ الصَّلٰوۃَ فِیْ ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ نَظَرَ اللّٰہُ اِلَیْہِ سَبْعِیْنَ نَظْرَۃً وَّقَضٰی لَہٗ بِکُلِّ نَظْرَۃٍ سَبْعِیْنَ حَاجَۃً اَدْنَا ھَا الْمَغْفِرَۃُ 23؎  ’’مجھے تیس صحابہ کرامؓ{{ {نے اِس نماز کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص اِس رات اِس نماز کو اَدا کرے گا، اللہ  اُس کی طرف 70بار نگاہِ کرم فرمائے گا اور ہر نگاہِ کرم کی برکت سے نماز پڑھنے والے کی ستر حاجتیں پوری فرمائے گا۔ اُن حاجتوں میں سے ایک حاجت اُس کی بخشش ہے‘‘۔
٭٭٭٭٭ 

ای پیپر دی نیشن