امیر محمدخان
فارم 47 اور نہ جانے کونسا دوسرا فارم کے شور میں الحمداللہ اسمبلی بھی تشکیل پاگئی ، پاکستان کے 24 ویں وزیر اعظم میاں شہباز شریف وزیر اعظم بھی بہ حسن خوبی بن گئے پاکستان کی آزادی کی عمر سے اگر حساب لگایا جائے تو 3.125سال اوسط ایک وزارت اعظمی کی عمر بنتی ہے جو ایک خوش آئند بات نہیں چونکہ پاکستان کی عمر میں ایک بڑا عرصہ آمریت کا گزرہ ہے جبکہ ہمار ا دعوی ہے کہ ہم جمہوری ملک ہیں وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے بہ حسن خوبی حلف بھی اٹھا لیا ایک ایسے وقت میں جبکہ اس وقت ملک کی نہ صرف حکومت بلکہ عوام کو بھی سخت محنت کی ضرورت ہے ،حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا عوام کا فرض ہے۔ خیال تھا کہ پی ٹی آئی کے رکن صدر پاکستان عارف علوی نہ لینگے ایک مرتبہ پھر سینٹ کے چئیرمین ہی حلف لینگے۔ مگر عارف علوی نے ” نزاکت “کا اندازہ کرتے ہوئے جسطرح اسمبلی کے اجلاس کا نوٹیفکشن رات پونے بارہ بجے جاری کیا اسی طرح جمہوری روایات کو قائم رکھتے ہوئے چار مارچ کو حلف لے لیا۔ اسمبلی میں دوران حلف برادری ، اور وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد وزیر اعظم کے خطاب کے دوران سنی اتحاد کونسل کے نئے ممبران نے شور و غو غا کرتے رہے جو سنی اتحاد کونسل (پی ٹی آئی ) کا خاصہ ہے ملک میں انتخابات ہوتے ہیں جو کامیاب ہوتے ہی وہ خوشی مناتے ہیں جو شکست سے دوچار ہوتے ہیں تو شکست کو تسلیم کم ہی کرتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ہر انتخاب کے بعد ہوتا ہے مگر کبھی حزب اختلاف نے یہ نہیں کہا ” کہ ہم اس حکومت کو چلنے نہیں دینگے “جبکہ ایوان میں بلاول بھٹو کی شاندار تقریر میں انہیں بہترین مشورے دئے تھے کہ عوام نے ہم سبکو ووٹ اپنے مسائل حل کرنے کیلئے دیئے ہیں ہمیں انہیں مایوس نہیں کرنا چاہئے اسوقت ملک نازک دورسے گزر رہا ہے۔ حزب اختلاف اپنی روایات کے مطابق ہر گز خاموشی کیلئے اور نہ ہی کسی ”میثاق“ پر تیار تھی جبکہ اب یہ ہی ہوسکتا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عمر ایوب اپنے گھر کے بار اپنے نام کے ساتھ ”سابق امیدوار وزارت اعظمی “کو بورڈ آویزں کرلیں یہ بھی ایک عزت کی بات ہے۔۔ دراصل ڈھکے چھپے انداز میں حکومت میں آنے والی پی ٹی آئی کے سربراہ نے سیاست کی ہی نہیں انکا ایجنڈہ ہی کچھ اور تھا اور تاحال ہے ، کوئی سیاست دان یہ کیسے مطالبہ کرسکتا ہے؟؟ کہ میں کسی سیاست دان سے بات نہیں کرونگا بلکہ عسکری اداروں سے بات کرونگا ،انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے چاند۔انہیں یہ بھی اندازہ نہیں کہ انتخابات کے بعد جب انہیں انتخابی نشان ملا اور آزاد اراکین کے طور پر در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے کہ کوئی سیاسی جماعت ان سے مل جائے او ر اسکا سہارہ وہ لے لیں ، مولانہ فضل الرحمان ، جماعت اسلامی ، کوبھی انتخابی نتایئج سے اختلاف تھا مگرانہوں نے بھی انکی سیاست کی بناءانہیں پناہ نہ دی۔ بلاآخر سنی اتحاد کونسل جسکے سربراہ خود بھی اپنی جماعت کے نام سے نہیں بلکہ آزاد انتخاب لڑکر کامیاب ہوئے تھے۔ دراصل نفرت کی سیاست نے پی ٹی آئی کی سوچ ہی منفی کردی وہ چاہتے ہیں کہ تا قیامت
اس ملک میں حکومت انہیں کی قائم رہے ، جبکہ انکا دور حکومت عوام نے دیکھ لیا ، آج بھی جب حزب اختلاف نے غصے میں تقاریر کیں تو وہ اپنی کارکردگی میں ورلڈ کپ ، شوکت خانم ہسپتال ‘جو سب پی ٹی آئی کی حکومت یا سیاست میں آنے کے قبل کے قصے ہیں۔ وہ اپنے دور حکومت میں ملک اور عوام کی خدمت کا کوئی قصہ بیان کرنے سے قاصر ہیں بزرگوں نے کہا ہے کہ غصے میں تو کوئی فیصلہ صحیح ہوتا ہی نہیں۔
اب اسمبلی اور حکومت کو نہ چلنے کے عوے کرکے سابقہ پی ٹی آئی ان لاکھوں ووٹرز کو مایوسی کے گڑھے میں دھکیل رہی ہے جنہوں نے انہیں ووٹ دئے۔ آزاد ممبران جو اسمبلی میں انکی حمایت کررہے ہیں ذرا سوچیں کہ انہو ں نے جو کروڑوں روپیہ فی کس لگا کر انتخابی مہم پر خرچ کئے ، اپنے حلقے کے عوام سے مسائل کے حل کا وعدہ کیا۔ کیا وہ اسمبلی میں اسلئے آئے ہیں کہ امور حکومت نہ چلے ، عوام کے مسائل حل نہ ہوں وغیرہ وغیرہ۔۔ انکے ووٹرز کیلئے مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ 9 مئی کوانکے کارکنوںکی دہشت گردی کو وہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ، اب تو بلاول نے بھی وزیر اعظم سے مطالبہ کردیا ہے کہ 9مئی کی عدالتی تحقیقات کی جائے ، جوڈیشنل کمیشن بنایا جائے ، یہ ہی مطالبہ ان آزاد اراکین(پی ٹی آئی ) کا بھی ہے بہت ممکن ہے کہ گیہوں کے ساتھ گن پس رہے ہوں جو براہ راست ملوث نہ ہوں انکی رہائی کے بعد پی ٹی آئی کے واقعی ملزمان کو سزا ملے گی چاہے اس میں ل قیدی نمبر 840ہی کی ہوں نہ ہوں تو کیا وہ اسے تسلیم کرلینگے یا پھر ”میں نہ مانوں ‘ ‘ کی گردان ہوگی ؟؟؟میاں شہباز شریف کی حکومت کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان اداروں کو ہدایات دیںجو تحقیقات پر مامور ہیں کہ فیصلے کرکے دودھ کا دودھ کا پانی پانی کریں تاکہ امور حکومت بہ حسن و خوبی چلیں۔ عوام منتظر ہیں کہ انکے مسائل حل ہوں ، ملک کی معیشت درستگی کی طرف گامزن ہو۔ بیرون ملک جواندرون ملک دشمنوں نے نام نہاد آزادی اظہار کے نام پر شور مچایا ہوا ہے اسکے لئے خواب خرگوش کے مزے لینے والے سفارت خانوں ، سفارت کاروں کو جگائیں کہ یہ وہاں کے سمندر پار پاکستانیوں کی خدمت کے ساتھ بیرون ملک منفی پروپگنڈہ کے خلاف ایکشن لینا انکی ذمہ داریوںمیں شامل ہے۔ ماضی میں وزارت اطلاعات میں نامی گرامی ملک دشمن جو خود بھی پاکستان کی بدنامی کا سبب بنے ہیں انہیں اپنی صفوں سے دور رکھیں چونکہ وہ پھر مختلف ذرائع سے ایک مرتبہ پھر وزارت اطلاعات ، اور مختلف وزارتوں میں گھس کر اپنا کا م شروع کردینگے۔ انہوںنے حکومت بنتے ہی پھر لبادہ اوڑھ کر اپنا کام شروع کردیا ہے۔ اب یہ میاں شہباز شریف کی ٹیم پر منحصر ہے وہ دوبارہ انہیں اپنی صفوںمیں نہ گھسنے دیں۔ بیرون ملک سمندر پار پاکستانیوںکے ذرمبالہ میں کمی آئی ہے اسے ایک مرتبہ پھر ایک مضبوط سمندر پار پاکستانی وزارت دیں، گزشتہ کئی سالوں سے بیرون ملک کے مسائل کے حل میں وزارت سمندر پار پاکستانی ”نامعلوم “ بنی رہی ہے۔ میاں صاحب کیلئے ضروری ہے گو کہ اتحادی جماعتوںکی سفارشیں ہونگی ،مگر لائق افراد کو ہی وزارتیں دی جائیں جو جوابدہ بھی ہوں نیز وزارتیں کم سے کم اور صرف ضروری ہی بنائی جائیں چونکہ نالائق وزارتیں قومی خزانے پر بوجھ ہوتی ہیں جنکی کوئی مثبت کارکردگی نہیں ہوتی۔ وزارت خارجہ ایسی مضبوط ہو جو بیرون دنیا کو ہمارے ملکی معاملات میں ”تو کون میں خامخواہ “کے کردار سے دور رکھنے کیلئے انہیں SHUT UP کال دے سکے۔ میاں شہباز شریف بیرون ملک پاکستانیوںکے اپنے ہمراہ پائینگے۔