مراد علی شاہ ہی سندھ کا وزیر اعلیٰ کیوں؟

چوہدری منور انجم
نقطہ نظر
پاکستان پیپلز پارٹی بلا شبہ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے جو گلگت بلتستان آزاد کشمیر سمیت چاروں صوبوں میں میں اپنا حلقہ اثر رکھتی ہے۔ اس وقت اس جماعت کی دو صوبوں میں حکومت اور صدر مملکت کا عہدہ بھی آصف علی زرداری کا منتظر ہے۔سندھ کے عوام نے ہمیشہ پاکستان پپلیز پارٹی کو عزت دی اس صوبے میں گزشتہ دو دہایوں سے پارٹی کی حکومت چلی آرہی جس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ سندھ کے عوام نے خدمت کو ووٹ دیا ہے جبکہ اس بار دو ہزار چوبیس کے انتخابات میں تو کلین سویپ کیا ہے اور تیسری بار مراد علی شاہ اس صوبے کے وزیر اعلی بنے ہیں، مراد علی شاہ میں ایسی کون سی خوبی ہے کہ آصف علی زردای اور چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کی نظر مین وہ تیسری بار بھی وزرات اعلیٰ کے مستحق ٹھرے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین قابلیتوں اور صلاحیتوں کی حامل ایسی شخصیت ہیں جن کی کارکردگی سے سندھ کے عوام نے انہیں پھر منتخب کیا ہے۔ 8 فروری 2024ءکو سندھ اسمبلی کی 130 عام نشستوں پر ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 87 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ ’پارٹی قیادت جس کو بھی عہدے کے لیے نامزد کرتی ہے اس کو پارٹی میں سب کا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ پی پی پی تمام فیصلے مشاورت سے کرتی ہے اور پارٹی قیادت حتمی فیصلہ کرنے کے لیے پوری پارٹی کی طرف سے بااختیار ہوتی ہے اور پارٹی قیادت کا فیصلہ پوری پارٹی کا فیصلہ ہوتا ہے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سید مراد علی شاہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے سندھ کے وزیراعلیٰ منتخب ہو ے ہیں۔ جولائی 2016ءکے بعد سے وہ لگاتار تیسری بار اس منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ سید مراد علی شاہ کی چیدہ چیدہ خوبیاں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سندھ اسمبلی میں موجود اراکین میں سے سید مراد علی شاہ کا شمار ان چند اراکین میں ہوتا ہے جو ایک پروفیشنل پس منظر بھی رکھتے ہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل وہ انجینیئرنگ اور بینکنگ کے شعبے کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔مراد علی شاہ کو وفاقی، صوبائی حکومت میں ملازمتوں کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کا بھی تجربہ رہا ہے۔ وہ واپڈا، پورٹ قاسم اتھارٹی، حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں انجینیئرنگ کے شعبوں سے وابستہ رہے اور بعد میں سٹی بینک میں کراچی و لندن اور گلف انویسٹمنٹ کارپوریشن (کویت) کے ساتھ بھی منسلک رہے۔
 مراد علی شاہ پہلے وزیراعلیٰ ہیں جن کے والد بھی اسی منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔نومنتخب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا تعلق سندھ کے ضلع جامشورو کے سیاسی گھرانے سے ہیں، وہ 8نومبر 1962ءکو کراچی میں پیدا ہوئے۔ان کے والد سید عبداللہ شاہ بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران 21اکتوبر 1993ءسے 6نومبر 1996ءتک صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے،مراد علی شاہ نے سینٹ پیٹرک ہائی اسکول کراچی سے میٹرک اور ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا۔انھوں نے این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئری اینڈ ٹیکنالوجی سے سول انجینئری میں بیچلرز کیا۔ یہ ڈگری سلور میڈلسٹ اعزاز کے ساتھ حاصل کی اور قائد اعظم اسکالر شپ کے حقدار قرار پائے۔ اس اعزاز و اسکالرشپ کی بنیاد پہ کیلیفورنیا (امریکا) کی سٹینفورڈ یونیورسٹی میں سیٹ حاصل کی اور سٹرکچرل انجیئنرنگ میں ماسٹرز ڈگری پائی۔ بعد ازاں عالمی اسکالرشپ پہ اسی امریکی یونیورسٹی سے اکنامک سسٹمز میں دوسری ماسٹرز ڈگری لی انجینئری کیرئیر میں واپڈا لاہور پورٹ قاسم کراچی اور حیدرآباد ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں خدمات سر انجام دیں۔ اس کے بعد کارپوریٹ شعبہ میں آئے اور سٹی بینک سندھ و لندن میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ گلف انویسٹمنٹ کارپوریشن کویت میں بھی سرو کیا۔ سترہ سال پہلے سیاست میں آئے اور جامشورو سندھ سے بطور ممبر صوبائی اسمبلی سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ سنہ دو ہزار آٹھ میں پھر منتخب ہوئے اور آبپاشی کی وزارت بھی پائی۔ سنہ 2016 میں وزیر اعلیٰ سندھ منتخب ہوئے۔مراد علی شاہ کے والد عبداللّٰہ شاہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں وزیراعلیٰ رہے تھے۔مراد علی شاہ نے سیاست کا آغاز 2002ءمیں کیا تھا، انہوں نے 2008ء، 2013ء، 2018ء اور 2024ءکے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔مراد علی شاہ 2008 ءسے 2016ء تک صوبائی وزیر رہے، جبکہ 2016ء میں انہیں وزیراعلیٰ سندھ بنایا گیا۔۔عام انتخابات 2018 ءکے انتخابات کے بعد مراد علی شاہ دوسری بار سندھ کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے اور اب 2024ء کے انتخابات کے بعد انہیں تیسری بار وزیرِ اعلیٰ سندھ بن چکے ہیں۔
سندھ میں ارباب غلام رحیم کا دور حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے کٹھن دور سمجھا جاتا ہے۔ ان دنوں میں پیپلز پارٹی سندھ میں اپوزیشن میں تھی۔ مراد علی شاہ بطور اپوزیشن پارلیمینٹیرین کافی سرگرم رہے، اسمبلی قوانین و ضوابط پر عبور کی وجہ سے وہ سینیئر پارلیمینٹرین و سپیکر مظفر شاہ کو بھی پریشان کر دیتے تھے۔انجینیئرنگ اور مالیات کا پس منظر ہونے کی وجہ سے وہ سندھ کے صوبائی محکموں کی معلومات بھی اچھے سے رکھتے ہیں جبکہ وفاق اور پنجاب سے سندھ حکومت کے وسائل اور پانی کی تقسیم کے معاملے میں بھی انھیں مہارت حاصل ہے۔وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہو یا پاکستان تحریک انصاف کی ان دونوں سے ہی ان کا ورکنگ تعلق بہتر رہا باوجود اس کے کہ سیاسی طور پر ان کی پارٹی قیادت کے تعلقات ان جماعتوں سے کشیدہ تھے۔
 اس رپورٹ میں ہم دیکھتے ہیں کہ کئی سالوں سے شمالی سندھ میں امن و امان کا مسئلہ موجود ہے۔ مراد علی شاہ نے فیصلہ کن آپریشن کا فیصلہ کیا تھا لیکن صورتحال جوں کی توں ہے، اس کے علاوہ سندھ میں صحت کے شعبے کی حالت بہتر نہیں صرف گمبٹ، این آئی سی وی ڈی اور ایس آئی یو ٹی کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن ہر ضلعی ہسپتال سمیت لاڑکانہ کے چانڈکا، نوابشاہ کے پی ایم سی سے لیکر جام شورو کے ایل ایم سی تک میں صورتحال کافی ابتر ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اسی طرح سندھ کے سرکاری سکولوں میں معیاری تعلیم، فرنیچر اور بنیادی سہولیات دستیاب نہیں اور لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
 یہ جو کہا جاتا ہے کہ پی پی پی نے سندھ میں کچھ نہیں کیااگر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے کچھ نہیں کیا تو 2018ء سے سندھ میں ان کی نشستیں ہر انتخاب میں بڑھ کیوں جاتی ہیں؟ پیپلز پارٹی 2008ء میں اقتدار میں آئی تو اس کیلئے کراچی میں امن و امان سر درد بنا رہا، ایک تو پرویز مشرف ملک میں بجلی کا بحران آنے والی حکومت کو ورثے میں دے کر گئے تو دوسری طرف کراچی شہر میں لسانی فسادات، ہڑتالیں اور جرائم کی وجہ سے ایک طرف فیکٹریاں بند ہونا شروع ہوگئیں تو دوسری طرف سرمایہ دار نئی سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار نہ تھے، لیکن پی پی پی حکومت نے کراچی سے کشمور تک بڑے منصوبے بنانے کا آغاز کیا، کراچی میں سڑکوں کو کشادہ کیا، میرپور خاص کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے ایک موٹروے طرز کی سڑک بنائی، دوسری طرف کراچی سے ٹھٹھہ اور حیدرآباد کی روڈ نئے سرے سے بنائی بلکہ اسے کشادہ بھی کیا، بدین اور تھر میں این آئی سی وی ڈی جیسے ادارے قائم کئے آج تھر جیسے علاقوں میں جدید ترین این آئی سی وی ڈی تو موجود ہے ہی اس کیساتھ حکومتی اسپتال بھی موجود ہیں جہاں 24گھنٹے ڈاکٹر موجود ہیں، بدین میں یونیورسٹی بھی قائم ہوچکی ہے، لاڑکانہ میں نہ صرف اوور ہیڈ برجز اور پل تعمیر ہوئے بلکہ جدید انفراسٹرکچر قائم کیا گیا، جامشورو سے سیہون جانے والا راستہ جو سنگل ٹریک تھا، اور یہ نیشنل ہائی وے تھی، جو وفاقی حکومت کو بنانا تھی، سندھ حکومت آگے بڑھی اور اپنے حصہ کا کام کیا یہ ہی نہیں سندھ میں جہاں جہاں وفاقی حکومت کو سڑکیں بنانی تھیں وہاں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے سندھ حکومت نے جدید ترین انفراسٹرکچر کھڑا کردیا۔لیاری جیسے علاقے میں آج میڈیکل کالج ہے۔ اس علاقے میں ایک یونیورسٹی بھی قائم کی گئی ہے۔ سکھر میں جدید ترین این آئی سی وی ڈی موجود ہے، یہاں دل کے اسپتال کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت کا جدید ترین اسپتال موجود ہے، یہاں مزدوروں کیلئے بہترین فلیٹ بھی موجود ہیں۔ سندھ حکومت نے فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو بلا معاوضہ دیے ہیں۔ نامسائد حالات کے باوجود سندھ حکومت نے جتنا سندھ میں 15سال میں کام کیا ہے اتنا کام گزشتہ 75سال میں نہیں ہوا۔

چودھری منور انجم 

ای پیپر دی نیشن