سیاسی منظر نامہ الیکشن کے نتائج کے بعد اب مکمل واضح ہو چکا ہے۔ اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کو الیکشن کمیشن کی جانب سے انہیں نہ دیے جانے کے بعد اب یہ نشستیں حکومتی اتحاد کو مل چکی ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال پنجاب اسمبلی میں بھی دیکھنے میں ارہی ہے۔ مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے وفاق میں اب مل کر ایسے نمبرز کا حصول ممکن بنا لیا ہے کہ وہ دو تہائی اکثریت کے نفسیاتی ہدف کو پار کر چکے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اب عددی اعتبار سے اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دو تہائی کے اکثریت حامل حکومت اتحاد کو ٹف ٹائم دیتے ہوئے پی ٹی ائی اسمبلیوں میں اپنا فعال کردار ادا کرے۔ پنجاب کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ہے پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی تعداد میں اسمبلی میں موجود ہے۔ ایسے موقع پر حکومت کے لیے کوئی بھی قانون سازی آسان کام نہیں ہوگی یوں کہہ لیں کہ مسلم لیگ ن کے لیے وزارت اعلی پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہونے والی ھے۔ اس کے لیے انہیں عملی طور پر اپنے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنا ہوگا۔ جنوبی پنجاب کا سیاسی منظر نامہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ بالکل واضح ہو چکا ہے۔ لودھراں سے سابق وزیر مملکت عبدالرحمن کانجو نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست دی اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں اپنے حریف رانا فراز نون کو شکست دے ڈالی۔ اس سے قبل جب الیکشن کے نتائج آئے تھے تو وہ رانا فراز نون سے شکست کھا گئے تھے۔ ان کی شکست ایک بڑی شکست تصور کی جا رہی تھی اور جنوبی پنجاب میں یہ ایک حیران کن دھچکا ثابت ہو رہی تھی۔ تاہم انہوں نے اپنی اس شکست کو قبول نہ کیا اور الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جس کے بعد ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا عمل مکمل کیا گیا۔ ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں انہوں نے اپنے حریف پی ٹی ائی کے آزاد امیدوار رانا فراز نون کو شکست دے دی یوں ان کی فتح بھی ایک حیران کن تبدیلی کے طور پر دیکھی گئی مگر رانا فراز نون نے لاہور ہائیکورٹ سے اس ری کاو¿نٹنگ کے عمل کے خلاف حکم امتناعی حاصل کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی کا حلف اٹھا لیا ہے۔ ملتان میں حلقہ این اے 148 پر سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو کامیاب قرار دیا گیا ہے ان کا اپنے حریف پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار بیرسٹر تیمور مہے سے محض 104 کا فرق ہے۔ بیرسٹر تیمور مہے نے بھی دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی درخواست الیکشن کمیشن میں جمع کرا دی۔ اس درخواست پر دونوں جانب سے فریقین نے بھرپور دلائل دیے ھیں۔ جس کے بعد دوبارہ ووٹوں کی گنتی کے معاملہ پر دائر درخواستوں پر سماعت کو الیکشن کمیشن نے مکمل کر لیا ھے۔ تاہم الیکشن کمیشن نے اب تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں سنایا ہے اور فیصلہ تاحال محفوظ ھے۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں اور اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا ہے انہوں نے اس سے قبل سینٹ میں اپنی نشست سے استعفی دے دیا تھا جسے باقاعدہ منظور بھی کر لیا گیا ہے۔ اب ایک بار پھر ان کی پارٹی انہیں سینٹ میں لانا چاہ رہی ہے یوں یہ صاف نظر آرہا ہے کہ اگر وہ دوبارہ سینٹ میں جاتے ہیں اور چیئرمین سینٹ کے عہدے کے امیدوار بنتے ہیں تو قومی اسمبلی کی اس نشست سے بھی وہ مستعفی ہو جائیں گے یوں اس نشست سے مستعفی ہونے پر یہاں ایک بار پھر ضمنی الیکشن بھی ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں انکے اسمبلی سے باہر چوتھے صاحبزاے علی قاسم گیلانی نے اس نشست کے حصول کیلئے درپردہ انتخابی مہم بھی شروع کردی ہے۔ جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب ری کاو¿نٹنگ کی محفوظ درخواست پر فیصلہ بھی کوئی نئی خبر لا سکتا ہے۔ دوسری جانب جنوبی پنجاب کے مسائل اب سر اٹھائے سامنے کھڑے ہیں۔ بڑھتی مہنگائی بے روزگاری اور غربت نے عوام کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل بنادیا ہے موجودہ حکمرانوں کا اصل امتحان اب شروع ہو چکا ہے، کابینہ کے مکمل ہونے کے بعد عوام تک نئی حکومت کی جانب سے ریلیف دینے کے اقدامات عملی طور پر نظر بھی آنے چاہیے۔گو وزیراعلی پنجاب مریم نواز عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے خاصی متحرک دکھائی دیتی ہیں اور انکے اس ویژن کے تحت پنجاب حکومت کی جانب سے نگہبان رمضان کے ذریعے ابتدائی طور پر جنوبی پنجاب کے گھرانوں کو ریلیف دیتے ہوئے راشن کی فراہمی کو ممکن بنایا جا رہا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ یہ امداد محض اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے کہ اس خطہ کے لاکھوں افراد خط غربت سے نیچے ہیں اور وہ کہیں رجسٹرڈ بھی نہیں ہیں۔ ایسے میں محض چند گھرانوں تک اس امداد اور راشن کی فراہمی مکمل ریلیف کا باعث نہیں بن سکتی اسی طرح وفاقی حکومت کی جانب سے یوٹیلٹی سٹورز پر بھی عوام کو سستی اشیا کی فراہمی کا دعوی کیا گیا ہے ، یوٹیلٹی سٹورز کے باہر صبح سویرے ہی سے راشن کے حصول کے لئے عوام کی لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں۔ یوٹیلٹی سٹورز پر لگنے والی لمبی قطاریں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ وہاں بھی عوام کو کچھ راشن کے حصول کے لیے طویل اور صبر آزما قطاروں میں انتظار کی اذیت سے گزر کر ہی راشن کا حصول ممکن ہوسکے گا ۔ حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتیں جس طرح حصول اقتدار کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑی ہو گئی ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اب عوام کے دردناک مسائل کو دور کرنے کے لیے بھی یہی اتحادی ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو جائیں اگر ایسا ہو گیا تو بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پایا جا سکے گا۔ بصورت دیگر عوام کے لیے یہ وقتی حکومتی اتحاد شاید کچھ زیادہ نہ کر پائے۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف انتخابات میں مبینہ دھاندلی کیخلاف سینٹ ،قومی وصوبائی اسمبلیوں میں سراپا احتجاج ہے۔ اس ضمن میں ہفتہ وار احتجاجی مظاہروں کی کال بھی دی جارہی ہیں،ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں کئے جانے والے احتجاجی مظاہروں میں پی ٹی آئی کے کارکن کم تعداد میں باہر نکلے اس دوران پولیس کی جانب سے ان مظاہروں کو آڑے ہاتھوں لیا گیا ،ملتان پریس کلب کے باہر کارکنوں پر لاٹھی چارج کے بعد چند گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں۔